1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: پجاری کی مسلم خواتین کو اغوا اور ریپ کی کھلی دھمکی

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، ںئی دہلی
8 اپریل 2022

مندر کے ایک پجاری نے مبینہ طور پر مذہب اسلام کی توہین کے ساتھ ہی مسلم خواتین کو ریپ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تفتیش کا حکم دیا گیا ہے اور قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/49ewY
Indien | Marichjhanpi
تصویر: Payel Samanta/DW

بھارتی ریاست اتر پردیش کی پولیس نے اس ویڈیو کی تفتیش کا حکم دیا ہے، جس میں مندر کا ایک ہندو پجاری مسجد کے دروازے پر، اپنے پیروکاروں کے ہجوم سے خطاب کے دوران مسلم خواتین کو اغوا کرنے اور ان کے ساتھ جنسی زیادتیاں کرنے کی کھلی دھمکی دیتے ہوئے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔

یہ واقعہ ضلع سیتا پور کے تاریخی قصبے خیر آباد کا ہے، جو اپنے دور کے معروف عالم دین اسماعیل خیر آبادی کا آبائی قصبہ تھا۔ دارالحکومت لکھنؤ سے یہ محض سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہی واقع ہے۔

ویڈیو میں کیا ہے؟

اس ويڈو میں خیر آباد مندر کے ایک مہنت کو گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے مسجد کے سامنے  لاؤڈ اسپیکر پر کہتے ہوئے سنا جا سکتا کہ اگر، ’’کوئی مسلمان علاقے میں کسی لڑکی کو ہراساں کرتا ہے، تو پھر میں مسلم خواتین کو اغوا کر کے ان کا کھلے عام ریپ کروں گا۔‘‘ اس پر وہاں پر جمع مہنت کے سینکڑوں پیروکار ’’جے شری رام‘‘ کا زوردار نعرہ لگاتے ہیں۔

اس ویڈیو میں مہنت اپنے قتل کی سازش کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے مسلمانوں اوران کے مذہب کی تذلیل کے لیے بہت سے ایسے نازیبا اور تحقیر آمیز الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ انہیں دہرانا بھی مناسب نہیں ہے۔

اس ویڈیو میں مہنت کے ساتھ ہی وردی میں ایک پولیس افسر کو بھی دیکھا جا سکتا ہے، تاہم وہ بھی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ مہنت جی کہتے ہیں، ’’مسلمانوں صحیح سے رہنا ہے تو خیر آباد میں رہو، کیونکہ جلدی ہی یہ شری رام نگر بننے والا ہے۔‘‘ 

Indien Symbolbild nationalistische Hindus
تصویر: Hindustan Times/imago images

وائرل ویڈیوز کی تحقیق کرنے والی ایک معروف ویب سائٹ ’آلٹ نیوز‘ کے ایک ایڈیٹر محمد رضوان نے یہ ویڈیو شیئر کی اور کہا کہ دو اپریل کو یہ واقعہ پیش آیا تھا تاہم ابھی تک حکام کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

اس کے جواب میں سیتا پور کی پولیس نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ایک سینیئر افسر اس کی تفتیش کر رہا ہے اور حقائق سامنے آنے کے بعد مناسب کارروائی کی جائے گی۔

چند روز قبل ہی یو پی کے ضلع غازی پور میں بھی ایسے ہی سخت گیر ہندو تنظیموں کے بہت سے کارکنان افطاری سے قبل ایک مسجد میں داخل ہو گئے تھے اور اس کے میناروں پر چڑھ کر، اپنا بھگوا پرچم لہرانے کے ساتھ جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے۔

’سب کچھ حکومت کی ایما پر ہو رہا ہے‘

بھارت میں مسلمانوں کے خلاف اس طرح کے حملے بہت تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ کہیں پر گوشت پر پابندی عائد کی جا رہی ہے تو کہیں پر مسجد پر نصب لاؤڈ اسپیکر اتارنے کی مہم شروع کی جا رہی ہے۔ آئے دن ہندو تنظیمیں اب مسلمانوں کی کھل کر مخالفت اور ان کے بائیکاٹ کی کال دے رہی ہیں۔

لکھنؤ کے ایک سینیئر صحافی پرویز احمد کہتے ہیں کہ حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے اور اب یہ سب ہر روز ہونے لگا ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چيت میں انہوں نے کہا، ’’وہ اپنی طاقت دکھانا چاہتے۔ وہ یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ہم اتنی اکثریت اور طاقت میں ہیں کہ ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں اور ہمارے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہو گی۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس طرح کھل کر سامنے آنے کا مطلب یہی ہے کہ، ’’حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے۔ اگر یہی بات کسی مسلمان نے کی ہوتی تو وہ اب تک جیل میں ہوتا۔ سینکڑوں مسلمان لڑکے پہلے ہی سے جیل میں بند ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ یہ سب کچھ حکومت کی ایما پر ہو رہا ہے۔ جب انصاف کا نظام رک جاتا ہے، تو پھر وہی مشکلات آتی ہیں جس کا آج سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حالات کافی بگڑے ہوئے ہیں۔ سب سے تشویش ناک بات تو یہ ہے کہ اب حکومتی افسر اور نوکر شاہ بھی ریڈیکل ہندو بنتے جا رہے ہیں۔‘‘

بھارت: مسجد-مندر تنازعہ: کیا ایودھیا صرف ہندوؤں کا ہے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید