1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں کسانوں کی پہیہ جام ہڑتال، سکیورٹی کا سخت پہرہ

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
6 فروری 2021

بھارتی کسان تنظیموں نے زرعی قوانین کے خلاف بطور احتجاج  پہیہ جام ہڑتال کرنے کا اعلان کیا تھا جس سے عام زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3oyor
Indien Jammu | Proteste verschiedener Aktivisten wegen neuem Landwirtschaftsgesetz
تصویر: Channi Anand/AP Photo/picture alliance

بھارتی کسان تنظیموں نے زرعی قوانین کے خلاف بطور احتجاج چھ فروی کو چند گھنٹے کے لیے ملک گیر سطح پر ’چکّا جام‘  یعنی اہم قومی اور ریاستی شاہراہوں کو بلاک کیا، جس سے عام زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔

کسان تنظیموں نے دارالحکومت دہلی کو اس ہڑتال سے مستثنیٰ رکھا ہے۔ اس کے باوجود سب سے زیادہ سکیورٹی کے انتظامات دارالحکومت دہلی میں کیے گئے ہیں جہاں فی الوقت 50 ہزار سے بھی زیادہ سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گيا ہے۔ متعدد میٹرو اسٹیشنز کو بند کردیا گيا ہے اور دہلی سے متصل تمام سرحدی علاقوں کو سیل کر دیا گيا ہے جبکہ پڑوسی ریاست ہریانہ اور یو پی میں پولیس کا سخت پہرہ ہے۔ اس دوران پولیس نے احتیاطی تدابیر کے طور پر درجنوں افراد کو حراست میں لیا ہے۔

مختلف ریاستوں میں چکّا جام ہڑتال کا آغاز دوپہر سے شروع ہوا جس کے تحت تمام بڑی سڑکوں، شاہراہوں کو مکمل طور طور پر بند کر دیا گیا۔ اس کا سب سے زیادہ اثر ریاست پنجاب اور ہریانہ میں دیکھنے کو ملا جہاں مظاہرین نے بیشتر سڑکوں کو پوری طرح سے بلاک کر دیا۔ اس سے اہم شاہروں پر آمد و رفت تقریباﹰ ٹھپ ہو کر رہ گئی۔

’پرامن احتجاج قوم کے مفاد میں ہے‘

ملک کی اہم اپوزیشن جماعت کانگریس نے کسانوں کی اس تحریک کی حمایت کی ہے۔ پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ’’کاشتکاروں کا یہ پرامن احتجاج قوم کے مفاد میں ہے۔ یہ قوانین صرف کسان مزدوروں کے لیے ہی نہیں بلکہ عام آدمی کے لیے بھی کافی نقصان دہ ہیں۔ ان کی پوری حمایت کرتے ہیں۔‘‘

Indien Neu Delhi | United Hindu Front | Protest gegen Thunberg, Rihanna & Harris
تصویر: Danish Siddiqui/REUTERS

چھبیس جنوری کو کسانوں کے احتجاجی مظاہرے کے دوران تشدد کے ساتھ ساتھ تاریخی عمارت لال قلعے پر سکھ مذہب کا پرچم لہرا دیا گیا تھا جس کے بعد کسانوں کی تحریک کو سکھ علحیدگی پسندوں سے جوڑنے کی باتیں ہونے لگی تھیں۔ تاہم کسان تنظیموں نے اس سے علحیدگی اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو دوبارہ منظم کیا اور اس واقعے کے بعد سے کسانوں کا یہ پہلا بڑا اقدام ہے۔

چکّا جام مظاہرے کے دوران مختلف ریاستوں میں بڑی شاہراہوں پر لاکھوں کسانوں نے دھرنا دیا اور متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف نعرے بازی کی۔ سڑکوں پر جمع مظاہرین سے کسان رہنماؤں نے خطاب کیا۔

مودی حکومت نے گزشتہ برس جن متنازعہ زرعی قوانین کو متعارف کیا تھا ان کے خلاف گزشتہ دو ماہ سے بھی زیادہ وقت سے احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ اس تعطل کو دور کرنے کے لیے حکومت اور کسانوں کے درمیان اب تک بات چیت کے گیارہ ادوار ہو چکے ہیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔ 

حکومت نے ان قوانین کو آئندہ ڈیڑھ برس کے لیے التوا میں رکھنے  اور جب تک اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ نہ ہوجائے انہیں نافذ نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ حکومت نے اس  میں بعض ترامیم کی بھی باتیں کہی ہیں لیکن کسان تنظیمیں ان تینوں قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

کسانوں کو خدشہ ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے انہیں ان کے اناج کی فروخت کے عوض مناسب دام نہیں ملیں گے اور مقامی منڈیوں پر نجی تاجروں اور بڑے کارپوریٹ اداروں کا قبضہ ہو جائے گا۔

نئی دہلی ایک جانب فوجی تو دوسری طرف ٹریکڑ پریڈ

امریکی اراکین کانگریس کا مطالبہ

اس دوران بھارت سے متعلق امریکی ایوان نمائندگان کی ایک کمیٹی نے پہلی بار بھارتی حکومت سے پرامن مظاہرین کو احتجاج کرنے اور انٹر نیٹ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس میں اس کمیٹی کے ایک رکن براڈ شیرمین نے اس سلسلے میں اپنے ریپبلکن ہم منصب سے میٹنگ  کے بعد امریکا میں بھارتی سفیر سے بات چیت کی ہے۔

اس کے بعد مسٹر شیرمین نے ایک بیان میں کہا، ’’میں بھارتی حکومت پر زور دیتا ہوں کہ جمہوری اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے مظاہرین کو پر امن مظاہرے کی اجازت دی جائے اور صحافیوں سمیت سبھی کو انٹرنیٹ سروس بھی مہیا کی جائے۔‘‘  ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھارتی سفیر سے بھی یہی بات کہی ہے۔

واضح رہے کہ حکومت نے دہلی کی سرحدوں پر ہونے والے کسانوں کے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے انٹرنیٹ سروسز منقطع کر دی تھیں اور پھر بعد میں صحافیوں کی بھی ان تک رسائی ختم کردی۔ اس وقت اگر کسی صحافیوں کو دھرنے تک جانا ہو تو میلوں پیدل چلنا پڑتا ہے۔

اس سے قبل اقوام متحدہ نے بھارت سے کسان مظاہرین کے ساتھ نرمی برتنے کی اپیل کی تھی۔ ادارے نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پرامن کسان مظاہرین  کے ساتھ ضرورت سے زیادہ  سختی نہ کی جائے۔ اس دوران سکیورٹی فورسز نے پر تشدد واقعات کے لیے اب تک درجنوں مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں