1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں ذہنی مریضوں کی سماجی کسمپرسی

عابد حسین24 فروری 2014

خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت میں چالیس ملین سے ساٹھ ملین کے درمیان مختلف ذہنی امراض کے حامل افراد ہیں۔ ذہنی امراض کے حامل افراد کے خاندان معاشرے میں کئی پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BETL
تصویر: DW/M. Krishnan

بھارت نے معذور افراد کے حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے کنونشن پر اِس کی منظوری کے سات برسوں بعد دستخط کیے ہیں۔ اس مناسبت سے موجودہ مرکزی حکومتی اتحاد کی بڑی سیاسی جماعت کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے معذور افراد کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں اور کارکنوں کے ساتھ یہ وعدہ بھی کر رکھا ہے کہ معذور افراد کے حقوق کے لیے تاریخی قانون سازی جلد مکمل کی جائے گی۔ معذور افراد کے حقوق کے لیے سرگرم جاوید عابدی کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو اس سے معاشرتی اور سماجی صورت حال میں یکسر تبدیلی کا امکان ہے۔

معذور افراد کے حقوق کے لیے خصوصی قانون سازی کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے کئی اداروں اور رضاکاروں نے دارالحکومت نئی دہلی میں کئی مظاہروں میں شرکت کے ساتھ ساتھ شبینہ موم بتیاں روشن کر کے دعائیہ تقریبات کا اہتمام بھی کیا۔ اِن شبینہ تقریبات کو نرم احتجاج کا ایک انداز قرار دیا گیا تھا۔ ان مظاہروں میں خاندانوں کے ہمراہ ہزاروں معذور افراد نے بھی شرکت کی تا کہ بھارتی پارلیمنٹ کے اراکین مجوزہ بِل کی جلد از جلد منظوری دے سکیں۔

بعض خاندانوں کے افراد حکومت کی جانب سے معذور افراد کے لیے پیش کیے گئے بل سے بالکل اُمید نہیں رکھتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے نزدیک معذوری کسی عذاب سے کم نہیں اور بِل کی منظوری سے سماجی سطح پر معذور افراد کے لیے روشن راستوں کا کھلنا محال ہے۔ ان افراد کے مطابق بھارت جیسے ملک میں معذور افراد کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ کسی طور پر بھی مناسب نہیں اور اِس رویے میں تبدیلی کا بھی امکان نہیں۔ یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ سماجی حوالے سے اس قانون کے نفاذ میں وہ قوت نہیں ہو گی جسے نافذ کرنے سے بہتری کی امید ہو۔ یہ امر اہم ہے کہ بھارت میں سماجی بھلائی کے لیے پہلے بھی قانون موجود ہیں لیکن اُن کے نفاذ کی صورتِ حال انتہائی کمزور ہے اور اسی وجہ سے بہتری کم ہی دیکھی گئی ہے۔

جنوبی ایشیا میں بھارت سمیت دوسرے ملکوں میں معذور افراد کے ساتھ ایک خاص دوری رکھی جاتی ہے۔ معذور افراد میں اگر کوئی عورت ہو تو اُس مزید تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بظاہر یہ تعصب ڈھکا چھپا ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں معذور افراد کی زندگیاں انتہائی تلخی سے عبارت ہوتی ہیں اور یہ لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے بھی بعض اوقات ترستے ہیں۔ کولکتہ میں معذور افراد کے حقوق کی سرگرم ورکر شمپا سین گپتا کا کہنا ہے کہ معذور عورتوں کو خاندان کے اندز بوجھ تصور کیا جاتا ہے اور اس باعث وہ گھریلو تشدد کا شکار رہتی ہیں۔ شمپا سین گپتا کے مطابق ایسی معذور عورتوں کو بعض اوقات جنسی زیادتیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔