1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: مسلم خواتین کی طاقت اور سیاسی نمائندگی کی مشکلات

11 نومبر 2020

بھار ت میں امتیازی اور متنازعہ ’شہریت ترمیمی قانون‘ کی منظوری کے خلاف جب شاہین باغ میں مسلم خواتین نے تحریک برپا کی تو اس نے مسلم خواتین کے حوالے سے رائج متعدد مفروضوں کو دفن کر دیا۔

https://p.dw.com/p/3l7vb
Zeenat Akhte
تصویر: privat

میں جب بھی دھرنے پر بیٹھی، خواتین کے ساتھ ہم کلام ہوئی تو ان میں سیاسی شعور اور مشاہدے کو دیکھ کر حیران ہو گئی۔ ان خواتین نے اتنا تو ثابت کر دیا کہ بھارتی مسلم عورتیں سیاسی اعتبار سے خاصی بیدار مغز ہیں۔ اس تحریک کی روح رواں بلقیس دادی کو تو مشہور امریکی جریدے ٹائم میگزین نے طاقتور خواتین کی فہرست میں شامل کیا۔

اب یہ قلق ہمیشہ ستاتا رہتا ہے کہ اس سیاسی شعور کے باوجود مسلم خواتین کو حکومتی سطح پر اور مسلم اداروں میں مناسب نمائندگی کیوں نہیں مل پاتی، کیا وہ صرف احتجاجی مظاہروں میں بیٹھنے کے لیے ہیں؟

یہ تلخ حقیقت ہے کہ مسلم خواتین کی قومی، صوبائی اور نچلی سطح پر قانون ساز اداروں میں نمائندگی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ان کی آبادی سات آٹھ کروڑ سے زائد یا تقریبا سات فی صد ہے لیکن آزادی کے بعد سے تشکیل پانے والی  سترہ لوک سبھاؤں (پارلیمنٹ کا ایوان زیریں) میں پانچ لوک سبھائیں مسلم خاتون ارکان سے خالی رہیں۔ آج بھی یہ تصویر نہیں بدلی ہے۔ آپ یہ سن کر یقین نہیں کریں گے کہ موجودہ 17ویں لوک سبھا میں محض تین مسلم خواتین ہیں۔ وہ بھی ایک ہی صوبہ یعنی مغربی بنگال سے منتخب ہوئی ہیں، جو وہاں کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس سے تعلق رکھتی ہیں۔

 ملک کی بقیہ اٹھائیس ریاستوں میں ان کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ اسی طرح راجیہ سبھا یا ایوان بالا کے 245 ارکان میں فقط دو مسلم خاتون ارکان ہیں۔ اس سے بھی زیادہ خراب تصویر صوبائی اسمبلیوں کی ہے۔ حالانکہ یوپی، بہار، آسام اور کیرلا جیسی ریاستوں میں مسلم آبادی کا تناسب قومی اوسط کے دوگنا اور تین گنا ہے۔ 

بھارت  میں مسلمانوں کا ملک کی مجموعی آبادی میں تناسب سن دوہزار گیارہ کی مردم شماری کی رو سے 14.4فی صد ہے، جس میں تقریباً نصف حصہ سات فیصد خواتین ہیں۔ لیکن مسلم خواتین سیاست کے علاوہ تعلیم، معاشی اور دیگر شعبوں میں بھی پسماندگی کا شکار ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

بھارت میں خواتین پر مظالم: نچلی ذات والوں اور مسلمانوں کے ليے انصاف کے پیمانے مختلف

یہ قابل غور بات ہے، ملک پر ایک خاتون اندرا گاندھی نے تقریبا سولہ سال تک حکمرانی کی ہے اس کے باوجود عام خواتین کی صورت حال بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔ سوائے ہندو ”اعلی ذاتوں‘‘ کی خواتین کی۔ عام خواتین کی سیاسی لحاظ سے بھی نمائندگی قابل ذکر نہیں ہے۔ بہرحال موجودہ 17ویں 543 رکنی لوک سبھا میں 78 خواتین پہنچی ہیں جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے منجملہ 783ارکان میں خواتین کی مجموعی تعداد 103 ہے اور ان میں صرف پانچ مسلم خواتین ہیں۔

 بیشتر خاتون ارکان پارلیمان ہندو اعلی ذاتوں اور مراعات یافتہ طبقات سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس اضافے کے باوجود بھارت طبقہ اناث کی نمائندگی کے معاملے میں ہمارے بیشتر ہمسایہ ممالک پاکستان، افغانستان، نیپال اور بنگلہ دیش سے پیچھے ہے۔ ان ملکوں میں خواتین کے لیے پارلیمانی نشستیں محفوظ ہیں۔ خواتین نمائندگی کی عالمی درجہ بندی میں بھارت کا مقام نیچے سے20 ویں نمبر پر ہے۔

صوبائی  قانون ساز اداروں میں بھی یہ تصویر زیادہ مختلف نہیں ہے۔ صوبائی اسمبلیوں میں تمام خواتین کی نمائندگی  نو فی صد سے کم ہے جبکہ مسلم خواتین کی نمائندگی تقریبا برائے نام ہے۔ مثلا ً آسام قانون ساز اسمبلی میں 14 خواتین ممبران ہیں، جن میں سے صرف ایک مسلمان خاتون ہے۔ حالانکہ ملک کے اس  شمال مشرقی صوبہ میں جموں و کشمیر کے بعد مسلم آبادی کا تناسب سب سے زیادہ ہے، جو 36 فیصد بنتا ہے۔

اسی طرح لوک سبھا کی 36  مشاورتی کمیٹیوں کی کسی بھی کمیٹی کی سربراہ کوئی مسلم خاتون نہیں ہے۔ راجیہ سبھا کی 12 اسٹینڈنگ کمیٹیاں میں بھی یہی معاملہ ہے۔

 عموماً سیاسی جماعتیں خواتین کو امیدوار نہیں بناتیں کیونکہ وہ امیدوار کی جیتنے کی صلاحیت کو فوقیت دیتی ہیں۔ اس لیے مسلم خواتین کو بھی مناسب تعداد میں ٹکٹ نہیں دیتیں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی ایک تہائی نشستیں خواتین کے لیے مختص کرنے کا سوال ایک عرصے سے چلا آرہا ہے۔ مگر اس میں مسلم، دلت، اور دیگر پسماندہ خواتین کے لیے ذیلی کوٹے پر کوئی آمادہ نہیں۔ حالانکہ یہ پارٹیاں مسلم ووٹ پر زندہ رہتی ہیں اور مسلم ووٹ حاصل کرنے کے لیے  بے قرار رہتی ہیں۔

 اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ آزادی کے بعد سے کسی بھی سیاسی جماعت نے ایک وقت میں تین سے زیادہ مسلم خواتین کو ٹکٹ نہیں دیا۔ یہی حال مسلم سماجی اور مذہبی تنظیموں کا ہے۔ کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ اور جماعت اسلامی نے خواتین نمائندگی کا کچھ خیال رکھا ہے۔ یہ ایک عام  غلط فہمی اور مفروضہ ہے کہ مسلم خواتین قدامت پسند اور معاشرتی، معاشی  اور ثقافتی طور پر پسماندہ ہیں۔ میرے خیال میں کئی دیگر عوامل بنیادی طور پر انہیں فیصلہ سازی کے عمل سے دور رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔

ان میں مردوں کے غلبے والا معاشرہ اور موروثی سیاست قابل ذکر ہیں۔ بھارت کی مسلم خواتین کو ایک اپنی نئی تحریک کی ضرورت ہے، جو ان کے حقوق کے لیے ہر میدان میں اترے اور ان کے حقوق کی جنگ لڑے۔