1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: شہریت ترمیمی قانون پر جولائی سے عملدرآمد

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیونیوز، نئی دہلی
3 فروری 2021

بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ شہریت سے متعلق متنازعہ قانون پر عمل کرنے کے لیے آئندہ جولائی تک اصول و ضوابط وضع کر لیے جائیں گے۔ تاہم اس کے مخالفین نے اس کے خلاف دوبارہ احتجاج شروع کرنے کی بات کہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3ooQT
Indien Neu Delhi Citizen Amendment Act Protest
تصویر: Mohsin Javed

بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ شہریت سے متعلق متنازعہ ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) جنوری 2020ء سے ہی نافذ ہے تاہم اس سے متعلق قواعد و ضوابط اب بھی تیار نہیں ہیں اس لیے اس پر عمل شروع نہیں ہو پایا۔ وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی اور اس برس جولائی کے اوائل تک قواعد و ضوابط ترتیب دینے کے بعد اس پر عمل شروع کر دیا جائے گا۔

منگل کے روز پارلیمان میں ایک سوال کے جواب میں حکومت نے اپنے تحریری جواب میں کہا،’’شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) سے متعلق اصول و ضوابط وضع کرنے کی کمیٹی کی میعاد میں توسیع کر دی گئی ہے اور اسے نو جولائی تک مکمل کر لیا جائے اس کے بعد اس پر عمل شروع ہو گا۔‘‘

کانگریس کے ایک رکن پارلیمان سری کندن نے سوال پوچھا تھا کہ کیا حکومت شہریت سے متعلق متنازعہ قانون نافذ کرنے جا رہی ہے اور کیا اس حوالے سے اصول و ضوابط وضع کیے جا چکے ہیں؟ اسی کے جواب میں حکومت نے یہ وضاحت پیش کی۔

قانون کے خلاف دوبارہ احتجاج شروع ہو گا

اس متنازعہ قانون کے خلاف گزشتہ برس ملک گیر احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس میں سے شاہین باغ کی تحریک کافی معروف ہے۔ گزشتہ برس انہی دھرنوں اور مظاہروں کے خلاف سخت گیر ہندو تنظیموں نے بھی بعض مقامات پر آواز اٹھائی اور پھر دارالحکومت دہلی میں فسادات بھڑک اٹھے، جس میں پچاس سے زیادہ افراد ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔ ان فسادات میں ہلاک و زخمی ہونے والے زیادہ تر مسلمان تھے۔ اسی ہنگامہ آرائی اور پھر کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے احتجاجی مظاہرے ختم ہو گئے تھے۔

Indien Neu Delhi | Shaheen Bagh | Proteste Frauen Staatsbürgerschaftsgesetz | CAB, CAA
تصویر: DW/S. Chabba

اس مہم میں شامل سپریم کورٹ کے وکیل محمود پراچہ نے ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دوبارہ مہم شروع کی جائے اور بہت ہی جلد دوبارہ  اسے شروع کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا، ’’یہ پہلے سے بھی کہیں بڑا احتجاجی مظاہرہ ہو گا۔ ہم نے تو یہ پہلے سے اعلان کر رکھا ہے کہ جیسے ہی حکومت اس پر عمل کا اعلان کرے گی تو  احتجاج دوبارہ شروع ہو گا۔ ہماری نظر حکومت کے اقدامات پر ہے، انہیں اعلان کرنے دیں۔‘‘

تنظیم 'یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ' کے ندیم خان نے بھی اس موقف کی یہ کہہ کر تصدیق کی کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے تو سو فیصد دوبارہ شروع ہونے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا،’’ابھی کورونا کی وبا کا اثر بھی ہے اور کسانوں کی تحریک بھی جاری ہے، جیسے ہی بڑے شہروں میں ویکسینیشن ہو جائے گی ہم اپنے راستوں پر واپس ہوں گے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا،’’ہمارا احتجاج پولیس کے ٹارچر یا حکومت کی زور و زبردستی  کی وجہ سے بند نہیں ہوا تھا بلکہ ہم نے وبا کی صورت حال میں حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے اسے ملتوی کیا تھا اور اب تھوڑا حالات مزید پر معمول آتے ہی پھر سے اپنی تحریک شروع کریں گے۔‘‘   

متنازعہ قانون کیا ہے؟

حکومت نے دسمبر 2019ء میں پارلیمان میں زبردست ہنگامے کے دوران شہریت ترمیمی ایکٹ منظور کیا تھا۔ اس متنازعہ قانون کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے بھارت آنے والے تمام غیر قانونی مہاجرین کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے۔ اس کے تحت ان ممالک کے ہندو، جین، سکھ، پارسی، بدھ اور عیسائی مذہب کے ماننے والوں کو  تو شہریت دینے کا وعدہ کیا گیا ہے تاہم مسلمانوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

بھارت میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کے حکومت کے اس فیصلے پر یہ کہہ کر شدید تنقید کی تھی کہ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی اس سے اپنا فرقہ وارانہ ایجنڈہ پورا کرنا چاہتی ہے۔ انسانی حقوق کی بیشتر تنطیموں، دانشوروں اور ملک کے معروف مصنفین نے بھی حکومت کے اس فیصلے کو فرقہ پرستی پر مبنی قرار دیا ہے۔

قواعد و ضوابط کیا ہیں؟

شہریت ترمیمی  قانون کے نفاذ کے لیے بعض اصول و ضوابط کو وضع کرنا اور ان کی وضاحت کرنا لازمی ہے۔ مثلا کن دستاویزات کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ درخواست گزار 31 دسمبر 2014 ء سے پہلے بھارت آیا تھا۔ کیونکہ اس نئے قانون میں ان افراد کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے جو اس تاریخ سے پہلے بھارت میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئے ہوں۔

درخواست گزار کو یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ وہ مذکورہ تین ممالک میں سے کسی ایک کا شہری تھا اور وہاں مذہبی بنیاد پر ظلم و زیادتی کی وجہ سے بھارت مجبور ہو کر آیا تھا۔ تو پھر اس کے ثبوت میں اسے حکام کو کونسی دستاویزات فراہم کرنی ضروری ہوں گی؟ 

نیشنل رجسٹریشن بل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسہ جاری

چونکہ بیشتر ایسے افراد غیر قانونی طور پر ملک میں بغیر کسی سفری دستاویزات کے داخل ہوئے ہیں تو پھر  کن دستاویزات کو تسلیم کیا جائے اور کن کو مسترد کیا جائے؟ اس طرح کی دیگر مزید پیچیدگیاں بھی ہیں اس لیے اس پر عمل آوری سے قبل اصول و قواعد طے کرنے لازمی ہیں۔

این آر سی پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں

مودی حکومت نے شہریوں کے لیے ایک 'نیشنل رجسٹر فار انڈین سٹیزنز' (این آر سی) بنانے کا بھی اعلان کیا تھا۔ لیکن پارلیمان میں حکومت نے ایک سوال کے جواب میں وضاحت کی ہے کہ ابھی حکومت نے اس کے نفاذ پر کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ا گرچہ حکومت نے اس کے نفاذ سے انکار نہیں کیا تاہم اس کا کہنا ہے کہ ابھی اس فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ 

این آر سی کا مقصد ملک میں موجود غیر قانونی پناہ گزینوں کا تعین کرنا تھا اور مبصرین کا کہنا ہے کا اس پروجیکٹ کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ تفریق برتی جا سکتی ہے کیونکہ جن مسلمانوں کے پاس دستاویزات نہیں ہوں گی وہ شہریت سے متعلق ترمیمی قوانین کی روشنی میں خود بخود بھارتی شہریت سے محروم ہوجائیں گے۔

 عدالت سے امید کم ہے 

بھارت کا آئین اپنے دیباچے میں ہی اپنے آپ کو ایک سیکولر آئین کہتا ہے جہاں مذہب کی بنیاد پر اس طرح کی تفریق غیر آئینی ہے۔ لیکن اس کے باوجود پہلی بار ملک میں مذہب کی بنیاد شہریت دینے کا قانون وضع کر دیا گیا۔ اسی بنیاد پر سپریم کورٹ سمیت ملک کی مختلف عدالتوں میں اس قانون کو چیلنج کیا گيا تھا اور کہا گیا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ غیر آئینی ہے۔

’مودی حکومت خاموش کرائے گی تو دیواریں بھی بولیں گی‘

بعد میں سپریم کورٹ نے تمام درخواستوں کے یکجا کر کے کیس اپنے ہاتھ میں لے لیا تاہم ایک برس کا وقت گزرنے کے باوجود ابھی تک اس پر کوئی سماعت نہیں ہوئی ہے۔'یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ' کے  ندیم خان کہتے ہیں،’’عدالت کا اب تک جو رویہ رہا ہے اس سے کوئی امید نہیں ہے۔ کشمیر سے متعلق درخواستوں اور سی اے اے پر اس نے تمام کوششوں کے باوجود ابھی تک سماعت کا عندیہ تک نہیں دیا ہے تو اب یہ لڑائی سیاسی ہے اور ہم اس کے لیے لڑتے رہیں گے۔‘‘

سینکڑوں کارکن جیلوں میں

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی شروع کرنے والے سینکڑوں کارکنان اور طلبہ کے خلاف پولیس نے بغاوت کرنے سمیت متعدد دفعات کے تحت مقدمات درج کرکے جیلوں میں ڈال دیا تھا، جو اب بھی بغیر کسی سماعت کے جیلوں میں قید ہیں۔ اس سلسلے میں بیشتر گرفتاریاں بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں ہوئی تھیں۔

تاہم دہلی میں چونکہ پولیس مرکزی حکومت کے زیر اثر ہے اس لیے فسادات کے بعد صرف دارالحکومت میں آٹھ سو سے زائد مسلم شہریوں کے خلاف کیسز درج کیے گئے تھے، جن میں بیشتر کو اب بھی ضمانت نہیں مل پائی ہے۔

لاکھوں مسلمان بھارتی شہریت سے محروم

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں