1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت، حراست میں لیے گئے چینی فوجی کو رہا کر رہا ہے

جاوید اختر، نئی دہلی
20 اکتوبر 2020

چین کے ساتھ جاری سرحدی کشیدگی کے درمیان بھارت نے کہا ہے کہ حقیقی کنٹرول لائن پار کر کے بھارت میں داخل ہو جانے پر حراست میں لیے گئے چینی فوجی کوجلد ہی پیپلز لبریشن آرمی کے سپرد کر دے گا۔

https://p.dw.com/p/3kABu
Indien China Grenzsoldaten Archiv 2008
علامتی تصویرتصویر: Diptendu Dutta/AFP/Getty Images

بھارت نے مشرقی لداخ کے ڈیم چوک سیکٹر میں ایک فوجی کو حراست میں لے لیا تھا جو حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) پار کرکے بھارتی علاقے میں داخل ہوگیا تھا۔ تاہم نئی دہلی نے کہا ہے کہ تمام ضروری خانہ پری مکمل کرنے بعد حراست میں لیے گئے چینی فوجی کو پروٹوکول کے تحت چینی حکام کے سپرد کردیا جائے گا۔

بھارتی آرمی کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ”پی ایل اے کے ایک فوجی، جس کی شناخت کارپورل وانگ یا لانگ کے طور پر ہوئی ہے، کو مشرقی لداخ کے ڈیم چوک سیکٹر میں 19 اکتوبر کو اس وقت حراست میں لے لیا گیا جب وہ حقیقی کنٹرول لائن پار کرکے بھارتی علاقے میں داخل ہوگیا تھا۔"

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ”پی ایل اے کی طرف سے ہمیں ایک درخواست موصول ہوئی ہے جس میں لاپتہ فوجی کے متعلق معلوم کیا گیا ہے۔ اور مقررہ پروٹوکول کے مطابق، تمام خانہ پری مکمل کرنے کے بعد، اسے چوشل مولڈو میٹنگ پوائنٹ پر چینی حکام کے سپرد کر دیا جائے گا۔"

بھارتی فوج نے اپنے بیان میں مزید بتایا ہے کہ ”چینی فوجی کو تمام طرح کی طبی سہولیات، آکسیجن، کھانا اور گرم کپڑے دیے گئے تاکہ وہ موسم کی سختی کا سامنا کرسکے۔"

چین کے سرحدی تنازعات

رہا کرنے کی جلد بازی کیوں؟

اسٹریٹیجک امور کے ماہر برہم چیلانی نے چینی فوجی کے تئیں بھارت کے نرم رویے اور اسے رہا کرنے کی جلد بازی پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا”جب چین نے بھارت کے اروناچل پردیش ریاست سے پانچ نوعمر شکاریوں کو پکڑ لیا تھا اور ان کے 'جاسوس‘ ہونے کا دعوی کیا تھا اس کے بعد انہیں آزاد کرنے میں 10دنوں کا وقت لیا تھا۔ اب بھارت نے پی ایل اے کے ایک فوجی کو پکڑا ہے۔ آخر وہ اسے رہا کرنے کے کے لیے اتنا بے تاب کیوں ہوا جا رہا ہے یا یہ کہہ رہا ہے کہ یہ فوجی اتفاقاً بھارتی علاقے میں داخل ہوگیا تھا؟“

دریں اثنا چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے لکھا ہے کہ ”پی ایل اے کا فوجی ایک چرواہے کی مدد کرتے ہوئے اتوار کے روز غلطی سے ایل اے سی کے پار چلا گیا تھا اور اس کا پتہ چلتے ہی چین نے بھارت کو فوراً اس کی اطلاع دی۔ جس کے بعد بھارت، چینی فوجی کو تلاش کرنے اور اسے چین واپس بھیجنے کے لیے رضامند ہوگیا۔"

بھارت اپنا وعدہ نبھائے گا

گلوبل ٹائمز کے مطابق پی ایل اے ویسٹرن کمانڈ کے ترجمان نے کہا ہے ”ہمیں امید ہے کہ بھارت اپنا وعدہ نبھائے گا اور فوجی کو واپس بھیجے گا۔ ساتھ ہی بھارت اور چین کے درمیان ساتویں مرحلے کی فوجی اور سفارتی بات چیت میں طے شدہ امور کو نافذ کرنے کے لیے چین کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ نیز سرحدی علاقوں میں امن او راستحکام کے قیام کی سمت کام کرے گا۔"

لداخ میں بھارتی فوج کی بھاری تعیناتی، لوگوں میں پریشانی

اپوزیشن سیاسی جماعت کانگریس پارٹی کے ترجمان جے ویر شیر گل نے چینی فوجی کو واپس کرنے کے حوالے سے ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا”افواج کے درمیان 'کوڈ آف آنر‘ پر عمل کرتے ہوئے بھارت نے پی ایل اے کے جوان کو واپس کرنے کا درست فیصلہ کیا ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ چین کب فنگر 4 اور ڈیپسانگ کے علاقے بھارت کو واپس کر رہا ہے؟ حقیقت پر پردہ پوشی کرنے کا بی جے پی کا یہ طریقہ بھارت کی علاقائی خودمختاری کے لیے نقصان دہ ہے۔“

تنازع برقرار

یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب بھارت اور چین کے درمیان پچھلے چھ ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری سرحدی تنازعہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ دونوں ممالک تنازع کو حل کرنے کے لیے اس ہفتے آٹھویں دور کی بات چیت کی تیاری کررہے ہیں۔

دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان لداخ خطے میں گزشتہ مئی میں جھڑپیں ہوئی تھیں جن میں کم از کم 20 بھارتی فوجی مارے گئے تھے اور درجنوں دیگر زخمی ہوئے تھے۔ ان جھڑپوں میں چینی فوجیوں کی ہلاکت کی بھی خبریں ہیں تاہم چین نے اب تک کوئی تفصیل نہیں بتائی ہے۔

گزشتہ ماہ دونوں ملکوں نے اپنی اپنی فوج دوسرے کے علاقوں میں بھیجنے اور انتباہی فائرنگ کرنے کے الزامات لگائے تھے۔ پچھلے 45 سال کے دوران اس طرح کی فائرنگ کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ ان واقعات نے جوہری طاقت رکھنے والے دونوں ملکوں کے مابین مکمل فوجی تصادم کے خدشات میں اضافہ کردیا ہے۔ اس وقت لداخ میں دونوں ملکوں کی تقریباً 50000 فوجیں جمع ہیں۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں