1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت اور چین کے فوجی کمانڈروں کے درمیان بات چيت کا آغاز

6 جون 2020

 بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں سرحدی تنازعہ کے حل اور دونوں فوجوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے آج سے اعلٰی فوجی قیادت کے درمیان بات چیت شروع ہوگئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3dKy5
Indisch-Chinesische Grenze Grenzpass
تصویر: Getty Images

بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے پانچ کلیدی مقامات پر دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ ان علاقوں میں گزشتہ کئی ہفتوں سے حالات کشیدہ بتائے جا رہے ہیں اسی لیے بھارت نے چین کی مقامی فوجی قیادت سے بات چيت کی  پیشکش کی تھی۔ حکام کے مطابق آج ہفتہ چھ جون کی صبح سے بات چیت کا آغاز ہوا ہے۔   

چونکہ بات چیت کی پیشکش بھارت نے کی تھی اس لیے گفت و شنید بھارتی سرحدی پوائنٹ چوشولو مولڈو کی ایک ہَٹ میں ہو رہی ہیں۔ بھارت کی جانب سے اس وفد کی قیادت 14 کور کے لیفٹنٹ جنرل ہریندر سنگھ کر رہے ہیں جبکہ چینی وفد کے سربراہ تبت کے ضلعی سطح کے فوجی کمانڈر ہیں۔ اس سے قبل بھی دونوں جانب کے فوجیوں کے درمیان چیت ہوئی ہے تاہم اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

بات چیت میں متوقع بھارتی مطالبات

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق بات چيت میں بھارتی وفد مشرقی لداخ کے تمام علاقوں میں مئی سے پہلے کی پوزیشن کو بحال کرنے پر زور دےگا اور جن علاقوں میں چینی فوج اس وقت موجود ہے وہاں سے اس کے واپس جانے کو کہےگا۔ بھارت، سرحد پر چینی فوجیوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کا بھی مخالف ہے اور چاہتا ہے کہ فوجوں کی تعداد میں کمی کی جائے۔ اس کا تیسرا مطالبہ یہ کہ چین سرحد پر بھارت کی جانب سے کھڑے کیے جانے والے انفراسٹرکچر میں رخنہ اندازی نہ کرے اور تعمیراتی کاموں کو چلنے دے۔

اسی حوالے سے یہ بھی پڑھیے؛
چین کے ساتھ مسئلہ مذاکرات سے حل کر لیں گے، بھارتی وزیر دفاع

چین نے بھی صدر ٹرمپ کی ثالثی کی تجویز ٹھکرا دی

خبروں کے مطابق یہ بات چيت کا پہلا مرحلہ ہے جس کے مزید ادوار بھی ہوں گے اس لیے آج کی گفت و شنید سے کوئی بہت زیادہ توقعات وابستہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ باور کیا جاتا ہے کہ آج کی میٹنگ کے بعد کسی بڑے اعلان کی توقع بہت کم ہے۔

Indisch-Chinesische Grenze Grenzpass
تصویر: Getty Images

ان مذاکرات سے محض ایک دن قبل یعنی پانچ جون کو بھارت اور چین کے سفارت کاروں اور بعض مندوبین کے درمیان ویڈیو کانفرسنگ کے ذریعے بات چیت ہوئی جس میں فریقین نے ’’اپنے اختلافات کو پرامن مذاکرات سے حل کرنے پر اتفاق کیا اور اختلافات و تنازعات کو جھگڑے میں تبدیل نہ ہونےکا اعادہ کیا۔‘‘ 

تمام تر کوششوں کے باوجود کشیدگی میں کمی کے آثار نہیں

خیال رہے کہ گزشتہ تقریباً تین ہفتوں سے بھارت اور چین کی فوجیں شمال مشرقی ریاست سکّم اور لداخ کے سرحدی علاقوں پر آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ ان علاقوں میں دونوں جانب سے فوجیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ہاتھا پائی جیسے بعض واقعات میں دونوں جانب کے فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق تمام کوششوں کے باوجود اب تک کشیدگی میں کمی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔

چین کا کہنا ہے کہ اس کشیدگی کی وجہ بھارت ہے جس کے فوجی چینی علاقوں میں داخل ہوئے جس کے بعد یہ تنازعہ شروع ہوا۔ لیکن بھارت کا کہنا ہے کہ چین سرحد پر معمول کی گشت میں رخنہ اندازی کر رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق چینی فوج نے ان علاقوں میں خیمے نصب کر لیے ہیں جن پر بھارت کا دعویٰ ہے۔

بھارت کے کئی سبکدوش فوجی افسران کا خیال ہے کہ چینی فوج نے مشرقی لداخ کے ان کئی علاقوں میں اپنے خمیے نصب کر دیے ہیں جس پر بھارت کا نہ صرف دعویٰ ہے بلکہ حالیہ دنوں تک اس کی فوجیں ان علاقوں میں گشت کیا کرتی تھیں اور ان علاقوں میں چینی فوج کی موجودگی سے دفاعی حکمت عملی کے اعتبار سے بھارت کی پوزیشن بہت کمزور ہوجائےگی۔

 بھارتی حکام کہتے ہیں کہ حقیقی لائن آف کنٹرول کے تعلق سے دونوں فوجوں کا ادارک مختلف ہے اس لیے سرحد پر ایسا ہوا ہے۔ لیکن دفاعی ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت کی تقریباﹰ پچاس کلومیٹر مربع زمین پر چین قابض ہوچکا ہے اور بھارتی حکام کا بیانیہ چین کے ہاتھ میں کھیلنے جیسا ہے۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں