1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بڑے بڑے خواب ديکھنے والے چھوٹی چھوٹی ملازمتوں پر مجبور

عاصم سليم5 جولائی 2016

اگرچہ ترک صدر نے گزشتہ ہفتے ہی يہ عنديہ ديا ہے کہ شامی مہاجرين کو ترک شہريت دی جا سکتی ہے، ترکی ميں ہزاروں اعلیٰ تعليم شامی نوجوان اپنے پيٹ پالنے کے ليے چھوٹی موٹی نوکرياں کرنے پر مجبور ہيں۔

https://p.dw.com/p/1JJL7
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Giannakouris

کوئی کسی ريستوران ميں بيرے کے طور پر کام کر رہا ہے، تو کوئی ہجامت پر لگا ہے۔ کسی نے کيک، پيسٹريوں وغيرہ کی دکان سنھال لی ہے، تو کئی نے دفاتر ميں ريسپشنسٹ کے طور پر ملازمت شروع کر دی ہے۔ يہ تمام وہ شامی نوجوان ہيں جو کسی وقت اپنے آبائی ملک ميں اعلیٰ تعليم و تربيت حاصل کر کے اپنے مستقبل کے حوالے سے بڑے بڑے ارادے رکھا کرتے تھے اور شايد ان کے تصور ميں بھی نہيں تھا کہ تقدير انہيں کس مقام پر لے آئے گی۔ ان کے ليے کوئی ملازمت چھوٹی يا بڑی نہ سہی ليکن خوابوں کا چکنا چور ہو جانا بہت بڑی بات ہے۔

ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول کے ايک محلے فيتھ کو عرب باشندوں کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ سڑکوں پر بادام، پستوں و عرب خوشبوؤں کی مہک سے لے کر بولی جانے والی زبان، يہاں کی ہر چيز ہی بہت سے لوگوں کو گھر کی ياد دلاتی ہے۔ رفيق بڑی نزاکت سے گتے کے ايک ڈبے ميں ايک کلو بخلاوا ڈالتا ہے۔ ڈبے پر دلکش ڈيزائن ميں ’دمشق کی سوغات‘ لکھا ہے۔ ستائيس سالہ شامی شہری سابقہ طور پر لکڑی پر اپنے فن کا مظاہرہ کيا کرتا تھا اور موقع ملتے ہی اس نے دوبارہ اپنی تخليقی صلاحيتوں کا مظاہرہ کر ڈالا۔ اس نے بتايا، ’’اپنی دکان کا لوگو اور ڈبا ميں نے خود ڈيزائن کيا ہے۔‘‘ رفيق کے بقول اس نے اپنی مرضی کی تعليم حاصل کرنے کے ليے کافی جد وجہد کی اور اسے اپنے فن سے کافی لگاؤ ہے۔

تاہم يہ سب شامی خانہ جنگی اور پھر اس وقت سے پہلے کی بات ہے جب صدر بشار الاسد نے رفيق جيسے نوجوانوں کو فوج ميں بھرتی کے ليے بلانا شروع کر ديا۔ رفيق کہتا ہے، ’’ميں بموں سے نہيں بلکہ اس خوف سے فرار ہوا کہ کہيں ميں ہی وہ بم پھينکنے والا نہ بن جاؤں۔‘‘ يہ امر اہم ہے کہ رفيق نے ذاتی وجوہات کی بناء پر اپنا دوسرا نام نہيں بتايا۔

استنبول کے فيتھ نامی اس محلے کی اس سڑک پر چند ہی قدم آگے احمد ايک ريستوران ميں کام کرتا ہے۔ چوبيس سالہ اس شامی نوجوان نے بتايا، ’’ميرے والدين نے مجھے اکاؤنٹس کی اعلیٰ تعليم دلانے کے ليے اپنا سب کچھ لُٹا ديا ليکن آج ميں انہی والدين سے بہت دور ايک ايسے ملک ميں ايک گمنام زندگی بسر کر رہا ہوں، جس کی ميں زبان تک نہيں جانتا۔‘‘ تاہم يہ امر بھی اہم ہے کہ احمد کو اپنے فيصلے پر کوئی افسوس نہيں۔ وہ کہتا ہے، ’’ميرے پاس صرف دو ہی راستے تھے، جنگ يا فرار۔‘‘

Griechenland Mazedonien Grenze Flüchtlinge in Idomeni
تصویر: DW/L. Scholtyssyk

ترکی ميں تقريباً 2.7 ملين شامی باشندوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ گو کہ حال ہی ميں ترک صدر رجب طيب ايردوآن نے يہ بيان ديا ہے کہ وہ شامی شہريوں کو ترکی کی شہريت دے سکتے ہيں، تاہم تاحال انقرہ حکومت نے انہيں باقاعدہ ’پناہ گزين‘ کی حيثيت دينے سے انکار کر ديا ہے اور انہيں صرف ’مہمان‘ کہا جاتا ہے۔ ان شامی مہاجرين کو ملازمت کی اجازت نہيں ہے اور اسی سبب وہ چھوٹی موٹی ملازمتيں کر کے اپنے پيٹ پالتے ہيں۔ 2.7 ملين تارکين وطن کا دسواں حصہ باقاعدہ مہاجر کيمپوں ميں مقيم ہے جبکہ بقيہ تمام ملک کے مختلف حصوں ميں رہتے ہيں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں