1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بوکو حرام کا احتساب کیا جائے، سلامتی کونسل

عاطف بلوچ10 مئی 2014

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بوکو حرام کا محاسبہ کرنے پر زور دیا ہے جب کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ابوجہ حکومت نے ایسے انتباہ کو نظرانداز کر دیا تھا کہ اسلام پسند جنگجو لڑکیوں کے اسکول پر حملہ کرنے والے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BxOm
تصویر: Pius Utomi Ekpei/AFP/Getty Images

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعے کے دن متفقہ طور پر زور دیا ہے کہ نائجیریا میں فعال کالعدم اسلام پسند تنظیم بوکو حرام کا احتساب کیا جائے۔ پندرہ رکنی کونسل کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں بوکو حرام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مغوی طالبات کو فوری اور بلا مشروط آزاد کر دے۔ اس عسکری تنظیم نے چودہ اپریل کو 276 جب کہ پانچ مئی کو آٹھ طالبات اغوا کر لی تھیں۔

2009ء کے بعد نائجیریا میں بڑھتے ہوئے تشدد کو دیکھتے ہوئے سلامتی کونسل نے اس جنگ جو گروہ پر پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ بیان کے مطابق یہ پرکھنا ضروری ہے کہ آیا ان شدت پسندوں کی کارروائیاں انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔ اس کونسل نے مزید کہا ہے کہ ان اسلام پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں سے وسطی اور مغربی افریقہ میں عدم استحکام پیدا ہونے کے خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔

Nigeria Terror Imam Abubakar Shekau von Boko Haram
بوکو حرام کا سربراہ امام ابو بکر شیخوتصویر: picture-alliance/AP

دوسری طرف جمعے کے دن ہی ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے ایک تازہ رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ابوجہ حکومت کو ایسی وارننگز ملی تھیں کہ یہ جنگ جو اسکول پر حملہ کرتے ہوئے طالبات کو اغوا کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں تاہم سکیورٹی فورسز نے اس تناظر میں کوئی احتیاطی تدابیر نہیں کی تھیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چودہ اپریل کو بورنو ریاست میں قائم ایک سرکاری اسکول پر حملے سے چار گھنٹے قبل ہی سکیورٹی فورسز کو خبردار کر دیا گیا تھا تاہم اس نے اس انتباہ کو نظر انداز کر دیا۔

غیر سرکاری واچ ڈاگ گروپ نے مزید کہا ہے کہ یہ رپورٹ متعدد سرکاری اور سکیورٹی اہلکاروں سے انٹرویو کرنے کے بعد مرتب کی گئی ہے اور اس میں آزادانہ ذرائع کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بورنو ریاست کی صوبائی حکومت کو متعدد مرتبہ بتایا گیا تھا کہ بوکو حرام طالبات کے ایک سرکاری اسکول پر حملہ کرنے والی ہے۔

افریقہ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے رابطہ کار نسانت بیلے کے بقول اس واقعے میں نائجیریا کی سکیورٹی فورسز ایک بڑی غلطی کی مرتکب ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان طالبات کا اغوا اور انہیں یرغمالی بنا کر رکھنا دراصل جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے اور جو اس جرم کے ذمہ دار ہیں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔

ایک اعلیٰ سکیورٹی اہل کار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ’’دو اعلیٰ فوجی اہل کاروں کو اس حملے کا پہلے سے ہی علم تھا۔ یہاں تک کہ وارننگز موصول ہونے سے قبل بھی انہیں اس طے شدہ کارروائی کا بارے میں معلومات تھیں۔‘‘ ایک اور حکومتی اہل کار کے مطابق بہت سے فوجی لڑائی سے گبھراتے ہیں اور ایسے مقامات پر تعینات نہیں ہونا چاہتے، جو میدان جنگ کے مانند ہیں۔

دریں اثناء مغوی طالبات کی بازیابی کے لیے نائجیریا کی فورسز کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں جب کہ امریکا نے اپنی ایک خصوصی ٹیم اس افریقی ملک روانہ کر دی ہے، جو مقامی فورسز کے ساتھ مل کر ان طالبات کا سراغ لگانے کی کوشش کرے گی۔

یاد رہے کہ اسلام پسند جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ وہ مغوی طالبات کو فروخت کر دیں گے۔ نائجیریا میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا خواہاں عسکری گروہ بوکو حرام مغربی تعلیم کو حرام قرار دیتا ہے اور ماضی میں بھی متعدد تعلیمی اداروں کو نشانہ بنا چکا ہے۔