1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی: کراڈچچ کے خلاف سماعت مکمل

مقبول ملک8 اکتوبر 2014

بوسنیا کی جنگ میں بوسنی سربوں کے رہنما راڈووان کراڈچچ کے خلاف دی ہیگ کی خصوصی عدالت میں مسلمانوں کی نسل کشی اور دیگر جنگی جرائم سے متعلق مقدمے کی طویل سماعت مکمل ہو گئی ہے۔ عدالتی فیصلہ چند مہینوں میں متوقع ہے۔

https://p.dw.com/p/1DSAJ
1995ء میں سریبرینتسا میں قریب آٹھ ہزار مسلمان مردوں اور نوجوانوں کا قتل عام کیا گیاتصویر: DW/E.Musli

بوسنیائی سربوں کے سابق رہنما راڈووان کراڈچچ کے خلاف بوسنیا کی جنگ کے دوران نسل کشی اور شدید نوعیت کے دیگر جنگی جرائم سے متعلق مجموعی طور پر 11 الزامات میں مقدمے کی سماعت پانچ سال تک جاری رہی۔ منگل سات اکتوبر کے روز سماعت مکمل ہونے سے قبل کراڈچچ نے آخری بار اپنے دفاع میں تفصیلی بیان دیتے ہوئے تمام الزامات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ انہیں امید ہے کہ عدالت انہیں تمام الزامات میں بری کر دے گی۔

کراڈچچ پر دیگر باتوں کے علاوہ اس بات کا بھی الزام ہے کہ انہوں نے 1992ء سے لے کر 1995ء تک جاری رہنے والی بوسنیا کی جنگ کے دوران بوسنی سرب فوجوں کے ہاتھوں بوسنیائی مسلمانوں پر مظالم اور ان کی نسل کُشی کی منصوبہ بندی کی اور انہی کی قیادت میں ساراژیوو کا محاصرہ کیا گیا اور پھر 1995ء میں سریبرینتسا میں قریب آٹھ ہزار مسلمان مردوں اور نوجوانوں کا قتل عام کیا گیا۔

Niederlande Kriegsverbrechertribunal Radovan Karadzic
کراڈچچ دی ہیگ کی عدالت میںتصویر: Michael Kooren/AFP/Getty Images

بلقان کے اس خونریز جنگی تنازعے میں قریب ایک لاکھ انسان مارے گئے تھے جبکہ ہزار ہا شہریوں کو نسلی تطہیر کے عمل کے دوران جبری طور پر ان کے آبائی علاقوں سے بے دخل بھی کر دیا گیا تھا۔

اپنے حتمی دفاعی بیان میں راڈووان کراڈچچ نے ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں سابق یوگوسلاویہ سے متعلق انٹرنیشنل ٹریبیونل کے تین ججوں پر مشتمل پینل کو بتایا کہ بوسنیائی جنگ میں پیش آنے والے حالات و واقعات ویسے نہیں تھے جیسے انہوں نے چاہا تھا۔ کراڈچچ نے کہا کہ یہ جنگ ایک ہولناک عمل تھا اور امید کی جانی چاہیے کہ یہ واقعات دہرائے نہیں جائیں گے۔

دی ہیگ میں اس مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کسی بھی فیصلے تک پہنچنے سے قبل ممکنہ طور پر کئی مہینوں تک غور و فکر کرے گی۔ کراڈچچ کے بقول انہیں امید ہے کہ عدالت انہیں بری کر دے گی۔

Karadzic und Mladic Archiv 1993 in Pale
کراڈچچ 1993ء میں بوسنیائی سرب دستوں کے کمانڈر، جنرل راتکو ملاڈچ کے ہمراہ، فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/dpa

استغاثہ کا مطالبہ ہے کہ اس وقت 69 سالہ کراڈچچ چونکہ بوسنیائی جنگ کے دوران سربوں کے زیر قبضہ علاقوں سے مسلمانوں اور کروآٹوں کی بے دخلی اور ان کے قتل کے مجرمانہ منصوبے کے مبینہ مرکزی کردار رہے ہیں، اور انہی کے حکم پر قتل عام، خواتین سے جنسی زیادتیوں اور جنگی مظالم کا سلسلہ جاری رکھا گیا تھا، اس لیے انہیں سخت سزا سنائی جانا چاہیے۔

اس مقدمے کی سماعت 26 اکتوبر 2009ء کو شروع ہوئی تھی اور اس دوران استغاثہ اور دفاع کی طرف سے قریب 600 گواہان نے عدالت کے سامنے تفصیلی بیانات دیے۔ کسی بھی فیصلے تک پہنچنے سے قبل تین رکنی عدالت کو مادی شواہد کے طور پر عدالت کے سامنے پیش کردہ بے تحاشا مواد اور گواہوں کے بیانات کے ہزاروں صفحات پر مشتمل تحریری ریکارڈ کا بغور جائزہ لینا ہو گا۔

سریبرینتسا کے قتل عام میں مارے جانے والے قریب آٹھ ہزار مسلمان مردوں اور نوجوانوں کے پسماندگان اور ساراژیوو کے طویل محاصرے میں زندہ بچ جانے والے افراد کو امید ہے کہ راڈووان کراڈچچ کو کم از کم بھی عمر قید کی سزا سنائی جائے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید