1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں سیاسی پناہ کی پالیسی ’سخت‘

9 اگست 2012

میانمار کے فساد زدہ صوبے راکھین سے بنگلہ دیش فرار ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کے تناظر میں ڈھاکہ حکومت سیاسی پناہ کی پالیسیوں کو سخت بناتی دکھائی دیتی ہے۔

https://p.dw.com/p/15mEZ
تصویر: DW/Shaikh Azizur Rahman

میانمار میں آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمان آباد ہیں تاہم وہاں کی حکومت انہیں مقامی نسلی گروپ کے طور پر تسلیم نہیں کرتی۔ میانمار کے صوبے راکھین میں فرقہ وارانہ فسادات اور ان کے نتیجے میں حکومتی کریک ڈاؤن کے باعث بہت سے روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش فرار ہو گئے، تاہم ڈھاکہ حکومت بھی انہیں تسلیم نہیں کرتی۔

بنگلہ دیش تین غیر سرکاری تنظیموں کو روہنگیا کمیونٹی کی مدد کے لیے کام 15 اگست تک روکنے کی ہدایت کر چکا ہے۔ ان تنظیموں میں ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف)، ایکشن اگینسٹ ہنگر اور مسلم ایڈ یو کے شامل ہیں۔

مسلم ایڈ یو کے لیاقت حسین نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں کہا کہ حکام نے انہیں واضح طور پر کہہ دیا ہے، ان کے کام سے غیرقانونی تارکین وطن کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔

ایم ایس ایف کے ایک ترجمان نے ڈھاکہ حکومت کے اس فیصلے پر تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے اُمید ظاہر کی ہے کہ ڈھاکہ حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی۔

Bangladesch Außenministerin Dipu Moni
بنگلہ دیش کی وزیر خارجہ دیپو مونیتصویر: AP

مقامی صحافی غفور چودھری کا بھی کہنا ہے کہ غیرسرکاری تنظیموں پر الزام ہے کہ ان کے کام سے روہنگیا پناہ گزینوں کی بنگلہ دیش آمد کا سلسلہ بڑھے گا اور وہ وہاں آباد ہونا چاہیں گے۔

بنگلہ دیش کی وزیر خارجہ دیپو مونی نے ایک حالیہ بیان میں مذہبی پارٹی جماعتِ اسلامی پر الزام لگایا کہ وہ میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے تنازعے کو اپنے مفادات کے لیے ہوا دے رہی ہے۔

ڈھاکہ حکومت کو خدشہ ہے کہ بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کی آمد کا نیا سلسلہ جماعت اسلامی کو مضبوط بنا سکتا ہے۔ دیپو مونی کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش ایسے حالات پیدا نہیں کرے گا، جو بدترین انسانی بحران کی وجہ بنیں۔

بنگلہ دیش روہنگیا کمیونٹی کے لوگوں کو پناہ دینا اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا، اس ‌حوالے سے ڈھاکہ حکومت کسی معاہدے کی پابند نہیں۔ وزیر خارجہ دیپو مونی کہتی ہیں کہ عالمی برادری یہ مسئلہ براہ راست میانمار کے ساتھ حل کرے۔

میانمار کی نوبل امن انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی کو قانون کی حکمرانی، امن و سکون کے لیے نئی پارلیمانی کمیٹی کی چیئرمین بنایا گیا ہے۔ حکام نے توقع ظاہر کی ہے کہ یہ کمیٹی نسلی اقلیتی گروپوں کے مسائل پر توجہ دے گی۔

سوچی نے گزشتہ ماہ پارلیمنٹ میں اپنے پہلے خطاب میں قانون کی حکمرانی کے فروغ اور میانمار میں اقلیتوں کے لیے مساوی حقوق کی ضمانت کے لیے آئین میں ترمیم پر زور دیا تھا۔

رپورٹ: سنجیو برمن/ این جی

ادارت: ہانس شپورش /کے ایم