1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش ميں پانچ سو گارمنٹس فیکٹریاں کھل گئيں

27 اپریل 2020

بنگلہ دیش میں لباس تيار کرنے والی 500 سے زائد فیکٹریاں، جو بین الاقوامی برانڈز کو کپڑے سپلائی کرتی ہیں، دوبارہ کھل گئی ہيں جبکہ بھارت ميں لاک ڈاؤن ميں نرمی کے مطالبات ميں زور پکڑتے جا رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/3bTuJ
Bangladesch Textilfabrik Arbeiter
تصویر: picture alliance/Zumapress

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے ليے ایک ماہ کی طویل بندش کے بعد پير کے روز بنگلہ دیش کی حکومت نے ترجيحی بنیادوں پر ایسی پانچ سو فیکٹریاں کھولنے کا اعلان کر دیا، جو لباس تيار کر کے بین الاقوامی برانڈز کو سپلائی کرتی ہيں۔

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ اور کپڑے تیار کرنے والے بندرگاہی شہر چٹاگانگ میں دوبارہ سے ٹيکسٹائل فیکٹریاں کو کام شروع کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ ملک کی اقتصادی شہ رگ کی حيثيت رکھتا ہے۔ بنگلہ دیش کی یہ فیکٹریاں گیپ سمیت دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں جيسے کہ زارا (انٹیڈکس) اور H&M کو ملبوسات سپلائی کرتی ہيں۔

Näherin Textilverarbeiterin Bangladesch billige Kleidung
تصویر: Reuters

بنگلہ دیش نٹ ویئر مینوفیکچررز اور ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر محمد حاطم نے اس موقع پر کہا، ''ہم اس بات کو یقینی بنارہے ہیں کہ ملازمین ماسک پہنیں، داخلی راستے ميں ہاتھ دھوئيں، اپنے جسم کا درجہ حرارت چک کروائيں اور جسمانی فاصلہ برقرار رکھيں۔‘‘

اس سیکٹر کے ليے انڈسٹری گروپس، جو 4،000 فيکٹریوں کو چلاتے ہيں اور ان فیکٹریوں سے4.1 ملین مزدوروں کا روزگار وابستہ ہے نے انتباہ کیا تھا کہ کورونا بحران کے سبب لاک ڈاؤن اور فیکٹریوں کی بندش کے نتيجے ميں رواں مالی سال ملکی برآمدات کو 6 ارب ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے۔

بنگلہ دیش نٹ ویئر مینوفیکچررز اور ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر محمد حاطم کے بقول،''بنگلہ دیش کے حریف ممالک جیسے کے ویتنام ، چین اور کمبوڈیا پہلے ہی فیکٹریوں کا کام  دوبارہ شروع کر چکے ہیں۔ بنگلہ دیش ميں اب تک کورونا وائرس کے ایک ہزار کيسس اور 145 اموات رپوٹ ہو چکی ہيں۔‘‘

بھارت کی صورتحال

 بھارت سخت بندش کے سنگين مسائل سے دوچار ہے۔ بھارت ميں لاک ڈاؤن 3 مئی کو ختم ہونے جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کے 28 ریاستوں کے وزرائے اعلی کے ساتھ پابندیوں کو اپنی جگہ برقرار رکھنے کے بارے ميں بات چیت کا آغاز کر دیا ہے۔

Bangladesch Industriepark Ashulia Frauen Arbeiterin
تصویر: JEWEL SAMAD/AFP/Getty Images

مغربی ریاست راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت نے کہا کہ شدید لاک ڈاؤن میں کسی بھی طرح کی توسیع بھوک يا قحط کا باعث بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہا،''حکومت کوکم متاثرہ علاقوں میں معاشی سرگرمياں بحال کرنے کی اجازت دینی چاہيے۔‘‘

بھارت کے 730 اضلاع میں سے 300 ميں کورونا وائرس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے۔ اشوک گہلوت نے کہا، ''میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کتنے لوگ کورونا سے ہلاک ہوں گے، لیکن اگر صورت حال ایسی ہی رہی تو لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔‘‘

پیر کو شائع ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت  میں27،891 افراد میں اس نئے کورونا انفیکشن کی تصدیق ہو چکی ہے۔ چین کے بعد ایشیاء میں یہ دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔ اب تک بھارت ميں کورونا وائرس کا شکار ہوکر  872 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

نئی دہلی حکومت کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے مہینے 3.6 دن ميں اموات ميں دوگنا اضافہ ہو رہا تھا اب اس ميں 10دن لگ رہے ہيں۔ صحت کے وزیر ہرش وردھن نے کہا،''ملک میں صورتحال بہتر ہورہی ہے۔‘‘

بنگلہ دیش میں لاکھوں افراد غیر مناسب حالات میں کام کرنے پر مجبور

ک م/ ع  ا/ ايجنسیز