1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: کھلے زخموں سے پیدا ہونے والی عفونت مزید جانیں لے رہی ہے

14 ستمبر 2010

ایک جرمن غیر سرکاری امدادی تنظیم بلوچستان پہنچنے والی پہلی امدادی تنظیم ہے جس کی میڈیکل ٹیم کی ایک ڈاکٹر کے مطابق ان علاقوں میں انتظامیہ کا کوئی وجود ہی نہیں۔ اس لئے مرنے والوں کی تعداد کا کہیں اندراج نہیں کیا جا رہا۔

https://p.dw.com/p/PBz2
سیلاب کے ٹہرے پانی میں سب سے زیادہ عفونت جنم لیتی ہےتصویر: DW

تقریباً سات ملین کی آبادی والے پاکستانی صوبے بلوچستان میں سیلاب زدگان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ وہاں اب تک سرکاری، غیر سرکاری یا کوئی غیر ملکی امدادی تنظیم نہیں پہنچی۔ تاہم گزشتہ ماہ اگست کے اواخر میں ایک غیر سرکاری جرمن امدادی تنظیم LandsAid نے اپنی ایک پانچ رکنی میڈیکل ٹیم بلوچستان کے لئے روانہ کی تھی۔ اس ٹیم کو پاکستان کی معروف غیر سرکاری امدادی تنظیم پاکستان ریلیف کا تعاون حاصل تھا اور اس تنظیم نے اپنے طبی کارکنوں کے ایک وفد کے ساتھ LandsAid کی میڈیکل ٹیم کو بذریعہ ہیلی کاپٹر بلوچستان بھیجا۔ دو ہفتے وہاں چھوٹے چھوٹے دیہات اور قصبوں، جو سیلاب کے نتیجے میں نیست و نابود ہو چکے ہیں، میں جاکر وہاں متاثرین کو طبی امداد فراہم کرنا کتنا دشوار عمل تھا، اس بارے میں ڈوئچے ویلے کو ایک خصوصی انٹر ویو دیتے ہوئے LandsAid کی ٹیم میں شامل ایک ڈاکٹر زرقا خواجہ نے کہا: ’’ہماری ٹیم پہلی ریلیف ٹیم تھی جو بلوچستان کے علاقے میں پہنجی۔ ڈسٹرکٹ جعفر آباد کے علاقے اوستا محمد میں نہ تو لوگوں کو کھانے کو کچھ میسر ہے اور نہ ہی پینے کا صاف پانی۔ طبی امداد تو بہت دور کی بات ہے۔ ان حالات سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ غذائی قلت کی وجہ سے بچے اور بھی زیادہ کمزور ہو جاتے ہیں اور ان کے اندر عفونت کے خلاف قوت مدافعت باقی نہیں رہتی۔ ان حالات میں ان بچوں کا علاج کرنا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘‘

Pakistan nach der Flut
ایک خیمے میں متعدد بیمار اور زخمی افراد بیماریوں کے پھیلاؤ کا باعث بن رہے ہیںتصویر: DW

ڈاکٹر زرقا کے مطابق جب وہ فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس علاقے میں پہنچیں تو انہیں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آ رہا تھا۔ بہت کم علاقے خشک ہیں، جہاں بہت تھوڑے لوگوں کو خیمے میسر ہیں اور اوسطاﹰ ایک چھوٹے سے خیمے میں بیک وقت اتنی زیادہ تعداد میں لوگ سر چھپائے ہوئے ہیں کہ بیماریاں ایک سے دوسرے میں تیزی سے منتقل ہو رہی ہیں۔ ڈاکٹر زرقا کے بقول: ’’جن لوگوں کو خیمے میسر نہیں ہیں، وہ ٹرک کے یا پلنگ کے نیچے یا ایسی جگہوں پر جہاں انہیں تھوڑا سا بھی سایہ دکھائی دیتا ہے، پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

LandsAid اور پاکستان ریلیف کی میڈیکل ٹیم کے اراکین، جو بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں پھنسے متاثرین کو طبی امداد پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں اب بھی سائے میں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ گرمی کے سبب سیلابی ریلے کے تھپیڑوں سے زخمی ہونے والے یہ نہتے انسان کھلے زخم لئے امداد کے منتظر ہیں۔ بغیر کسی مرہم پٹی کے زخمی جسموں سے عفونت پھیل رہی ہے، جو زیادہ سے زیادہ انسانوں کو متاثر کر رہی ہے۔ کیا بلوچستان کے ان علاقوں میں مزید اموات واقع نہیں ہو رہیں؟ ڈاکٹر زرقا کہتی ہیں: ’’وہاں پہلے ہی بہت زیادہ اموات ہو چکی ہیں، جن کا کہیں کوئی ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے۔ بلوچستان کے ان علاقوں میں انتظامیہ کا کوئی وجود ہی نہیں۔ اس لئے مرنے والوں کے کوائف اور تعداد کا کہیں اندراج نہیں کیا جا رہا۔ ہمارے میڈیکل کیمپ میں ہر دو گھنٹے بعد کوئی نہ کوئی آتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ گزشتہ روز یا پچھلے ہفتے اس کے دو یا اس سے بھی زیادہ بچے مر چکے ہیں۔ ان کی اموات تاہم کہیں رجسٹر نہیں کی جا رہیں۔ ان لوگوں کے پاس اموات کے اندراج کے لئے درکار اشیاء بھی نہیں ہیں۔‘‘

Pakistan Afghanistan Überschwemmungen
بچے سب سے زیادہ اور جلدی انفکشن کا شکار ہوتے ہیںتصویر: DW

LandsAid نامی جرمن غیر سرکاری امدادی تنظیم کے طبی عملے میں شامل ڈاکٹر زرقا خواجہ نے کہا کہ بلوچستان میں حالیہ سیلابوں کے نتیجے میں لقمہء اجل بننے والے انسانوں کا کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں ہے، نہ ہی اب تک ہونے والی کل اموات کی تعداد کا صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ موجودہ حالات سے یہی تاثر مل رہا ہے کہ وہاں روزانہ مزید لوگ دم توڑ رہے ہیں۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں