1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان بلدیاتی انتخابات: خوف سے سینکڑوں حلقوں میں کوئی اُمیداوار ہی نہیں

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ7 دسمبر 2013

پاکستان میں بلدیاتی حکومتوں کے قیام کے سلسلے کا پہلا مرحلہ ملک کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں آج اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے ان بلدیاتی انتخابات میں تقریباﹰ تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔

https://p.dw.com/p/1AUjN
تصویر: Abdul Ghani Kakar

اٹھارہ ہزار امیدواروں کے انتخاب کے لئے تقریباﹰ 30 لاکھ سے زائد ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے لئے پولنگ آج صبح مقامی وقت کے مطابق صبح اٹھ بجے شروع ہوئی جو کہ اکثر اضلاع میں بلا تعطل اپنے مقررہ وقت شام پانچ بجے تک جاری رہی۔ تاہم پولنگ کے اغاز میں سکیورٹی خدشات کے بدولت ووٹروں کا کم ٹرن آؤٹ دیکھنے میں آیا اور بعد میں اس میں تسلسل کے ساتھ اضافہ دیکھا گیا۔

مقامی حکومتوں کی قیام کے لئے ہونے والے انتخابات میں بلوچستان کی کل7190 نشسوں کے لیے اگرچہ اٹھارہ ہزار امیدوار میدان میں اترے تاہم جماعتی سطح پر ہونے والے ان بلدیاتی انتخابات میں 2372 امیدوار بلا مقابلہ ہی منتخب ہوئے۔ اس لیے پولنگ 4500 نشستوں پر انتخاب کے لیے ہوئی اور 16628 امیدواروں کے حق میں 30 لاکھ سے زائد ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

Wahl in der Provinz Balochistan
تصویر: Abdul Ghani Kakar

’پر امن انتخابات‘

وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس ناصر الملک نے کوئٹہ میں مختلف پولنگ اسٹیشنوں کا دورہ بھی کیا۔ اس موقع پر ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کے دوران وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ گھمبیر حالات کے باوجود بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے پر امن انعقاد سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بلوچستان کے لوگ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا، ’’بلوچستان کے عوام کو بہت کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پر امن طور پر انتخابات میں حصہ لیا اور یہ مثال بھی قائم کی گھمبیر حالات کے باوجود یہاں انتخابات ان صوبوں سے پہلے منعقد ہوئے، جہاں حالات ہمارے صوبے سے کافی بہتر ہیں۔ ہم نے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے احکامات کی روشنی میں انتخابات کا انعقاد کرایا اور اس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ہم جمہوری لوگ ہیں اورجمہوری اقدار کی قدر کرنا جانتے ہیں۔‘‘

Wahl in der Provinz Balochistan
تصویر: Abdul Ghani Kakar

انتخابات کے دوران کوئٹہ، مستونگ ، پنجگور، زیارت، چمن خضدار اور بعض دیگر علاقوں میں بدنظمی کی شکایات کے باعث مختلف گروپوں میں جھڑپوں کی وجہ سے پولنگ میں کچھ دیر کے لیے تعطل بھی پیدا ہوا جبکہ کوئٹہ میں پولنگ عملے کو بیلٹ پیپرز بھی تاخیر سے فراہم کئے گئے جس کی وجہ سے پولنگ اسٹاف کو مشکلات کا سامنا کرنا۔

ہڑتال کی اپیل

دوسری جانب بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی اپیل پر کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں ان انتخابات کے خلاف آج شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال بھی کی گئی۔ جبکہ مکران اور قلات ڈویژن میں پانچ سو سے زائد حلقے ایسے بھی رہے، جہاں کسی امیدروار نے انتخاب نہیں لڑا کیونکہ ان بلوچ اکثریتی علاقوں میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔

پولنگ کے موقع پر امن و امان کی بحالی کے لیے صوبے بھر میں سکیورٹی اداروں کے 50 ہزار سے زائد اہلکار بھی تعینات کیے گئے تھے۔ خیال رہے کہ ضلع کیچ کے علاقے میں نامعلوم افراد نے بلامقابلہ منتخب ہونے والے نیشنل پارٹی کے سات کونسلروں کو بھی گزشتہ دنوں اغواء کیا تھا جن کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔