بلوچ قوم پسندوں کے قتل کے خلاف وسیع تر احتجاج
11 اپریل 2009ان خونریز واقعات میں سے ایک میں ایک موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم مسلح افراد نے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک پولیس اہلکار کو گولی مار کرہلاک کردیا۔ ایسے ہی ایک دوسرے واقعے میں نامعلوم حملہ آوروں نے ایک شخص کو گولی ماردی جبکہ ایک اور شدید زخمی ہو گیا۔ اس کے علاوہ کوئٹہ کے نواح میں پولیس کو کوئلے کی ایک کان سے چھ ایسے کارکنوں کی لاشیں بھی ملیں جنہیں جمعہ کے روز اغواء کیا گیا تھا اور ہفتہ کی صبح سروں میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا۔
اس واقعے کے بارے میں بعد ازاں میرک بلوچ نامی ایک شخص نے خود کو بلوچستان لبریشن آرمی BLA نامی علیحدگی پسند گروپ کا ترجمان قرار دیتے ہوئے خبر ایجنسی AFP کو ایک نامعلوم جگہ سے ٹیلی فون پر بتایا کہ چھ کان کنوں کو اس لئے قتل کیا گیا کہ وہ بلوچ نہیں تھے اور ان کا تعلق صوبہ پنجاب اور صوبہ سرحد سے تھا۔
BLA کے اس مبینہ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ صوبے میں یہ ہلاکتیں پشتون آبادی سے تعلق رکھنے والے ان اقلیتی باشندوں کے لئے بھی ایک پیغام ہیں جو بلوچستان میں آباد ہیں اور نیم فوجی دستوں پر مشتمل فرنٹیئر کور کے ان سیکیورٹی اہلکاروں کے لئے بھی جنہوں نے جمعرات کے روز تین بلوچ قوم پسند سیاست دانوں کی لاشیں ملنے کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران کوئٹہ میں بلوچ خواتین پر لاٹھی چارج کیا تھا۔