1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلاگ واچ : بھارتی آرمی چيف اور وزير دفاع مد مقابل، بات عدليہ تک پہنچ گئی

18 جنوری 2012

تاريخ پيدائش کے حوالے سے جاری تنازعہ پر بھارتی آرمی چيف جنرل وی کے سنگھ نے سپريم کورٹ کا رخ کر ليا ہے۔ اس اقدام کے بعد مقامی تجزيہ کاروں اور لوگوں ميں غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/13lQ3
تصویر: picture-alliance/ dpa

بھارتی ذرائع ابلاغ ميں ان دنوں آرمی چيف جنرل وی کے سنگھ کے حوالے سے جاری تنازعہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ جنرل کی پيدائش کا سال 1950ء ہے جبکہ جنرل وی کے سنگھ اس بات پر بضد ہيں کہ وہ 1951ء میں پیدا ہوئے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق آرمی چيف کو اکتيس مئی 2012 ء کو اپنے عہدے سے ريٹائر ہونا پڑے گا۔ ليکن اگر جنرل وی کے سنگھ کی اپيل کامياب ہو جاتی ہے، تو وہ مزيد دس ماہ تک اپنے عہدے پر فائز رہ سکتے ہيں۔ آرمی چيف کے مطابق ان کا یہ اقدام ذاتی نوعیت کا ہے اور اس کا ان کی سروس سےکوئی تعلق نہيں۔ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کئی بار ان کی اپيل مسترد کيے جانے کے بعد اب جنرل وی کے سنگھ نے سپريم کورٹ کا رخ اختيار کر ليا ہے۔ البتہ ان کے اس اقدام پر تجزيہ کار، مختلف اخبارات اور انٹرنيٹ ويب سائٹس ملے جلے رجحانات کا اظہار کر رہی ہیں۔

آرمی چيف کے حوالے سے جاری تنازعہ لوگوں کی توجہ کا مرکز
آرمی چيف کے حوالے سے جاری تنازعہ لوگوں کی توجہ کا مرکزتصویر: AP

ٹائمز آف انڈيا کے انٹرنيٹ ايڈيشن کے چيف ايڈيٹر راجيش کلرا اپنے بلاگ ميں سولہ جنوری کو منفی انداز ميں يادگار قرار ديتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دن کو آنے والے وقتوں ميں ايک ايسے دن کے طور پر ياد رکھا جائے گا کہ جب بھارتی بری فوج، جمہوری حکومت کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ اس موقع پر راجيش کلرا نے طنزيہ انداز ميں پاکستان کا بھی حوالہ ديا، جہاں افواج اور جمہوری حکومتوں کے مابین تناؤ معمول کا حصہ ہے۔ راجيش کلرا کے مطابق جنرل وی کے سنگھ کے اس اقدام سے بظاہر ايسا لگتا ہے کہ يا تو فوج ميں سياسی رجحان موجود ہے يا پھر جمہوری حکومت اپنی ساکہ کھو بيٹھی ہے اور یہ دونوں صورتحال، بھارت کے ليے منفی ہيں۔ دلچسپ طور پر راجيش کلرا کے اس بلاگ پر لوگوں کی ايک بڑی تعداد نے وزير دفاع اور حکومت کو بدعنوان قرار ديتے ہوئے جنرل وی کے سنگھ کے اقدام کو اصولی قرار ديتے ہوئے سراہا۔

اس موضوع پرDaily News and Analysis کی ويب سائٹ پر متعدد افراد نے اپنی رائے کا اظہار کيا۔ سپريم کورٹ کے سابق جج پی بی ساونت نے اس حوالے سے کہا کے جنرل وی کے سنگھ کے اقدام ميں کوئی خرابی نہيں اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ان کا حق ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ آرمی چيف کی جانب سے اپنے تنازعہ پر سويلين عدالت سے رجوع کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلح افواج ميں جمہوری حکومت اور عدالتی نظام کی بالادستی کا احساس موجود ہے۔

اس حوالے سے اخبارات، سوشل ميڈيا اور بلاگ ويب سائٹس پر بہت سے سابق فوجی افسران نے بھی اپنا موقف بيان کيا۔ ميجر جنرل SCN Jatar نے اس بارے ميں اپنے بلاگ ميں لکھا ہے کہ وہ جنرل وی کے سنگھ کے اقدام کو سراہتے ہيں اور ملک ميں کسی کو يہ حق نہيں کہ وہ کسی اور کی تاريخ پيدائش تبديل کر سکے۔ ميجر جنرل ريٹائرڈ سشی کانت پيترے بھی کہتے ہيں کے جنرل وی کے سنگھ کا موقف نجی اور اصولی ہے اور وہ اس کا دفاع کرنے ميں مکمل طور پر درست ہيں۔

لوگوں کا ماننا ہے کہ بھارتی بری فوج، جمہوری حکومت کے سامنے آ کھڑی ہوئی ہے
لوگوں کا ماننا ہے کہ بھارتی بری فوج، جمہوری حکومت کے سامنے آ کھڑی ہوئی ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

دوسری جانب سابق يونين ہوم سيکريٹری مادہو گودبولے نے ايک الگ نظريہ پيش کرتے ہوئے کہا کہ جنرل وی کے سنگھ کا يہ اقدام، آرمی اور عدالتی نظام کے رشتے کے ليے منفی ثابت ہو سکتا ہے اور اس کے طويل المدتی اثرات نمودار ہو سکتے ہيں۔ مادہو گودبولے کے مطابق جنرل وی کے سنگھ کو حکومتی اور عدالتی فيصلہ تسليم کر لينا چاہيے تھا۔

تجزيہ کاروں، متعلقہ اداروں کے اہلکاروں کے مطابق يہ بات ظاہر ہے کہ يہ مسئلہ عدالتی نظام اور آرمی کے درميان تنازعہ کا رخ اختيار کر رہا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ بھارتی ذرائع ابلاغ اور عوام دونوں کی توجہ اس پر مرکوز ہے۔

رپورٹ : عاصم سليم

ادارت : عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں