بریگزٹ برطانیہ کو’مہنگا‘ پڑے گا
24 مئی 2016برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ اگر برطانوی عوام آئندہ ماہ ہونے والے ریفرینڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تو ممکن ہے کہ یورپ میں چھٹیاں گزارنے کے لیے جانے والے ہر برطانوی خاندان کو 230 پاؤنڈز تک اضافی اخراجات برداشت کرنے پڑیں۔
یورپی یونین سے برطانیہ کے ممکنہ اخراج کی صورت میں برطانوی خاندانوں کے مالی معاملات پر پڑنے والے بوجھ کے بارے میں ملکی وزیراعظم کیمرون اس سے قبل بھی کئی مرتبہ خبردار کر چکے ہیں اور آج منگل کو یہ اس سلسلے کا تازہ ترین انتباہ ہے۔
برطانوی وزارت خزانہ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ یورپی یونین سے اخراج کی حمایت میں ڈالا جانے والا ہر ووٹ، پاؤنڈ کی قدر میں 12 فی صد گراوٹ کا باعث بنے گا، جس سے سیاحت کی غرض سے یورپ جانے والے خاندانوں کو اشیائے خورد نوش اور رہائش کی مد میں زیادہ اخراجات برداشت کرنا ہوں گے۔
ایک حالیہ تجزیے کے مطابق یورپی یونین سے اخراج کے بعد چار افراد پر مشتمل ہر برطانوی گھرانے کو یورپ میں ہفتے بھر کی تعطیلات منانے پر اوسطاً 230 پاؤنڈز کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ ڈیوڈ کیمرون نے کہا،’’تمام شواہد اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ یورپی یونین سے اخراج کے فیصلے کا مطلب پاؤنڈ کا کمزور ہونا ہے۔ 23 جون کو برطانوی عوام نے جن دو باتوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے وہ بالکل واضح ہیں۔ یورپی یونین میں شامل رہ کر معاشی مضبوطی اور استحکام حاصل کرنا یا پھر معاشی طور پر نا ہموار راستے کا انتخاب۔‘‘
برطانوی وزیر اعظم نے گزشتہ روز یہ بھی کہا تھا کہ 'بریگزٹ ' سےبرطانیہ نہ صرف مالی بحران کا شکار ہو سکتا ہے بلکہ ملازمتوں کے نصف ملین مواقع بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ برطانوی وزارت خزانہ کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے حوالے سے چلائی جانے والی مہم جانبدار تھی کیونکہ اس میں نہ تو یورپیئن بلاک چھوڑنے کے ظاہری پہلوؤں سےمتعلق معلومات فراہم کی گئیں تھیں اور نہ ہی یورو زون میں کسی بحران کے ممکنہ منفی نتائج پر۔
یاد رہے کہ یورپی یونین کے رکن ملکوں کی موجودہ تعداد 28 ہے، جن میں برطانیہ بھی شامل ہے۔ لیکن اس سال 23 جون کو وہاں ایک ایسا ریفرنڈم کرایا جائے گا، جس میں عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ برطانیہ کو آئندہ بھی یونین کا رکن رہنا چاہیے یا اس بلاک کی رکنیت ترک کر دینی چاہیے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں یونین کے حق میں اور مخالفت میں رائے رکھنے والوں کی تعداد تقریباً برابر ہے۔