برین ڈرین: چینی کوششوں کی کامیابی کی امید
25 جولائی 2010تب ایسا محسوس ہوتا تھا کہ امریکہ میں اس خاتون سائنسدان کے تعلیمی اور تحقیقی کریئرکی کوئی حد نہیں ہو گی۔ لیکن پھر انہوں نے بالکل ویسا ہی فیصلہ کی جس کی چینی رہنما ایسے زیادہ سے زیادہ ماہرین سے امید کرتے ہیں۔
شی زی گونگ نے امریکہ میں اپنی تمام تر مصروفیات کو خیر باد کہا اور دو عشرے بیرون ملک گزارنے کے بعد ہمیشہ کے لئے واپس چین لوٹ گئیں۔ یہ خاتون جیالوجسٹ اب بیجنگ میں سنگ ہوا یونیورسٹی میں لائف سائنسزکے شعبے کی سربراہ ہیں۔ اور ان جیسے ماہرین کی چین وطن واپسی سے اب بیجنگ حکومت کو یہ امید ہونے لگی ہے کہ وہ اپنی اس جدوجہد میں کامیاب ہو جائے گاجو طویل عرصے سے جاری ہے۔
یہ جدوجہد چین سے ماہر اور ہنر یافتہ افراد کے بیرون ملک مہاجرت کی کئی برسوں سے جاری لہر کا رخ موڑنے کے حوالے سے ہے۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی اس وقت تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت اور تیز رفتار ترقی کرتے ہوئے معاشرے میں دراصل ہنر افراد کی اتنی کمی ہے کہ جسے قابل افسوس ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چین سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک بڑی طاقت بننے کی خواہش بھی رکھتا ہے۔ اس پس منظر میں چینی حکومت نے باصلاحیت افراد کی بیرون ملک مہاجرت کی اس لہر کو روکنے کی بڑی کوشش کی جو کئی سالوں سے جاری ہے۔
یہ لہر سن 1966ء سے لے کر سن 1976ء کے عرصے میں ثقافتی انقلاب کہلانے والے اس دور میں بھی بہت تیز ہو گئی تھی، جب یونیورسٹیوں کا ماحول بالکل بدل گیا تھا۔ اور ملکی سطح کی نئےاعلی تعلیمی ادارے سالہا سال کے لئے بند کر دیئے گئے تھے۔
اس پیش رفت نے چین میں سائنس اور تعلیم کے شعبے کو بہت نقصان پہنچایا تھا اور پھر سرکاری سرپرستی میں چین کے ذہین ترین افراد نے اعلیٰ تعلیم کے لئے اس طرح بیرون ملک جانا شروع کر دیا تھا کہ ان میں سے بہت سے بیرون ملک ہی مستقل طور پر رہائش پزیر ہو گئے۔
انہوں نے وہاں اپنے میزبان ملکوں میں شہریت بھی حاصل کرنا شروع کر دی تھی لیکن اب یہ رجحان بدلتا نظر آرہا ہے۔ اور چینی حکومت کو امید ہے کہ 43 سالہ شی ژی گونگ کی طرح چینی لوگوں نے واپس چین لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ ان کی دستیابی سے چین کا جلد ازجلد ایک بڑی سائنسی طاقت بننے کا خواب مقابلتا جلد پورا ہو سکے گا۔
رپورٹ : عصمت جبیں
ادارت : عاطف توقیر