1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ میں اگلے ماہ سے نیلا ’بریگڑٹ پاسپورٹ‘

22 فروری 2020

بریگزٹ کے بعد برطانیہ اگلے ماہ سے یورپی یونین کے عنابی رنگ کے پاسپورٹ کی بجائے نیلے رنگ کے پاسپورٹ کا اجرا شروع کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3YBXP
Brexit Reisepass Großbritannien vor EU-Flagge
تصویر: Getty Images/M. Cardy

یورپی یونین نے سن 1988 میں تمام رکن ریاستوں کے پاسپورٹ کے لیے عنابی رنگ مختص کر دیا تھا اور تب سے اب تک یہ پہلا موقع ہو گا کہ برطانیہ میں نیلے رنگ کا پاسپورٹ جاری ہو گا۔ برطانوی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ اگلے ماہ سے برطانیہ میں نیلے رنگ کا پاسپورٹ رائج ہو جائے گا۔

برطانوی وزیرداخلہ پریتی پٹیل نے دوبارہ برطانیہ کے نیلے رنگ کے پاسپورٹ کی جانب لوٹ جانے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، تاہم یورپی یونین کے حامی حلقوں اور شمالی آئرلینڈ کے قوم پرست رہنماؤں نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی وجہ سے برطانوی شہریوں کو یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں پر لمبی قطاروں میں لگنا پڑے گا۔

بریگزٹ: غیرملکیوں کے خلاف نسل پرستانہ خط، ’صرف انگریزی بولو‘

پوری یورپی یونین کا نیا مرکز اب ایک بہت چھوٹا سا جرمن گاؤں

برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ نیا پاسپورٹ نہایت ماحول دوست ہو گا، جس کی تیاری میں ہائیڈروکاربن گیسوں کا اخراج مجموعی طور پر صفر بنایا جائے گا، یعنی پاسپورٹ بنانے کے بدلے شجرکاری جیسے پروجیکٹ شامل کیے جائے گے، تاکہ جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ ان پاسپورٹوں کی تیاری میں پیدا ہو، اتنی ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ درختوں کے ذریعے جذب کر لی جائے۔

برطانوی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس پاسپورٹ میں متعدد نئے سکیورٹی فیچرز بھی شامل کیے جا رہے ہیں، جن میں کوائف کے حامل پیج کا بھرپور تحفظ شامل ہے۔ اس کے علاوہ شناخت کی چوری کے ممکنہ واقعات کی روک تھام کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

وزیرداخلہ پٹیل کے مطابق، ''یورپی یونین سے اخراج کے ذریعے ہمیں ایک انوکھا موقع ملا ہے کہ ہم اپنی قومی شناخت کو بحال کریں اور ایک نئے انداز سے دنیا سے ملیں۔ ہم روایتی نیلے اور سنہرے ڈیزائن کی جانب لوٹ کر ایک مرتبہ پھر برطانیہ کی قومی شناخت واپس حاصل کر رہے ہیں اور میں بے صبری سے اس نئے پاسپورٹ پر سفر کرنے کی منتظر ہوں۔‘‘

دوسری جانب یورپی یونین کے حامی سیاست دانوں کا کہنا ہےکہ یہ اقدام یورپ کے دیگر ممالک اور شہریوں کے لیے ایک طرح سے 'جارحانہ‘ ہو گا۔ یورپی پارلیمان میں ایک طویل عرصے تک برطانوی رکن کے طور پر خدمات انجام دینے والے ایڈورڈ مک میلن کے مطابق، ''یہ اقدام قدامت پسند جماعت کی جانب سے یورپ کے دیگر ممالک کے لیے ایک تفاخرانہ طرز کا ہو گا، جو برطانیہ کی تنہائی اور بے خبری کے علاوہ خود تخریبی کا آئینہ دار بھی ہو گا۔‘‘

ع ت، ع ح (روئٹرز، ڈی پی اے)