برطانوی شہریوں کی شامی جنگ میں شمولیت روکنے کے لیے خواتین سے مدد
24 اپریل 2014برطانوی پولیس نے ایک نئی مہم کا آغاز کر دیا ہے، جس کے تحت متاثرہ کمیونیٹیز کی خواتین سے اپیل کی جائے گی کہ وہ اپنے مردوں کو شامی خانہ جنگی میں شامل ہونے سے روکیں۔
حکام کے مطابق کئی سو برطانوی مسلمان شہری شام میں باغیوں کے ساتھ مل کر بشارالاسد کے خلاف عسکری کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ تاہم خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ یہ افراد وہاں سخت اور خطرناک نظریات سے متاثر ہو کر وطن واپسی پر برطانوی سرزمین کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ برطانوی سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ یہ افراد اسلامی شدت پسندی کی تربیت لے کر برطانیہ میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
برطانیہ کی قومی کوآرڈینیٹر فار انسداد دہشت گردی پولیسنگ سے وابستہ ہیلن بال کے مطابق، ’نوجوان برطانوی شہریوں کی شامی تنازعے میں عسکری شرکت پر ہماری تشویش مسلسل بڑھ رہی ہے۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق برطانوی پولیس اس سلسلے میں اپنی مہم کا آغاز جمعرات کے روز کر رہی ہے۔ ’ہم لوگوں خصوصاﹰ خواتین کو جو اپنے پیاروں کی وجہ سے پریشانی اور تشویش کا شکار ہیں، یقین دلا رہے ہیں کہ وہ کس طرح ان نوجوانوں کو کسی دہشت گردانہ واقعے میں ملوث ہونے سے بچا سکتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتہ جنوبی انگلینڈ سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان شام میں لڑائی میں مارا گیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ شامی تنازعے میں شامل ہونے کے بعد وطن واپس لوٹنے والوں کو گرفتاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ برطانیہ میں رواں برس کے اب تک گزرنے والے چار ماہ میں 40 افراد کو شامی تنازعے میں شامل ہونے پر حراست میں لیا گیا ہے، جبکہ گزشتہ پورے سال میں یہ تعداد 23 تھی۔
گرفتار شدگان میں گوانتانامو بے کا ایک سابقہ قیدی معظم بیگ بھی شامل ہے، جسے مارچ میں دہشت گردی کے الزامات میں حراست میں لیا گیا ہے۔ تاہم معظم بیگ کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ وہ شام میں انسانی بنیادوں پر امداد کی سرگرمیوں میں مصروف تھا۔
بال کے مطابق برطانوی حکومت تسلیم کرتی ہے کہ شام جانے والے تمام برطانوی افراد عسکری کارروائیوں میں شریک نہیں، تاہم اس مہم کی مدد سے عوام کو یہ بتایا جائے گا کہ شام میں امداد کے متلاشی افراد تک کس طرح محفوظ اور قانونی طریقے سے امداد پہنچائی جا سکتی ہے۔