1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

برطانوی سفارت کاروں کی طالبان حکومت سے پہلی بات چیت

6 اکتوبر 2021

برطانوی سفارت کاروں نے کابل میں طالبان حکومت کے نمائندوں سے پہلی بار ملاقات کی ہے۔ یہ بات چیت ایک ایسے وقت ہوئی جب طالبان پر، ''ماورائے عدالت سزائے موت دینے'' کا الزام عائد کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/41JsO
Afghanistan | Simon Gass trifft Amir Khan Muttaqi
تصویر: social media/REUTERS

برطانوی سفارت کاروں اور طالبان کے درمیان پہلی ملاقات پانچ اکتوبر منگل کے روز کابل میں ہوئی۔ برطانوی دفتر خارجہ نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان کے لیے اس کے خصوصی سفیر سائمن گاس اور برطانوی سفارت خانے کے مارٹن لونگڈین نے طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔

بیان کے مطابق ملاقات کے دوران انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے افغانستان کو درکار امداد پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ طالبان کی جانب سے ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس ملاقات میں دوبارہ سفارتی تعلقات بحال کرنے سے متعلق بھی بات چیت ہوئی۔

بات چیت کن امور پر ہوئی؟

یہ بات چیت انسانی بحران سے نمٹنے، سکیورٹی کی صورت حال اور دہشت گردی کے مسائل پر مرکوز تھی۔ برطانوی اور جو افغان شہری ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں ان کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرنے کے ساتھ ہی خواتین کے حقوق پر بھی  بات چیت میں توجہ مرکوز کی گئی۔

مارٹن لونگڈین نے اس حوالے سے اپنی ایک ٹویٹ میں ملاقات کی ایک تصویر پوسٹ کی اور کہا، ''یہ ابتدائی ایام ہیں، اور حیرت انگیز طور پر، ہمارے درمیان نکتہ نظر کے حوالے سے بہت سے اختلافات ہیں۔ لیکن افغانستان اور (اس سے آگے) کے حوالے سے مستقبل میں اس  طرح کے مشکل چیلنجز کا سامنا رہے گا۔''

دوسری طرف طالبان حکومت میں وزارت خارجہ کے ایک ترجمان عبدالقہار بلخی نے اپنے بیان میں کہا کہ اس ملاقات کے دوران طالبان گروپ نے ''تعمیری تعلقات'' قائم کرنے کی کوشش پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا، ''ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بارے میں تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔''

عبدالقہار بلخی نے اپنی ایک ٹویٹ میں ملاقات سے متعلق تصاویر بھی پوسٹ کیں اور لکھا کہ اسلامی امارات افغانستان کے وزیر خارجہ عامر خان متقی نے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے خصوصی نمائندے اور ان کے ساتھ آنے والے دیگر برطانوی مندوبین سے ملاقات کی ہے۔

Afghanistan Kabul | Mawlawi Amir Khan Muttaqi, Außenminister Übergangsregierung
تصویر: Bilal Guler/Anadolu Agency/picture alliance

افغانستان کو فی الوقت ایک شدید انسانی بحران کا سامنا ہے جسے ملک کی لڑکھڑاتی معیشت نے مزید تباہ کر دیا ہے۔ ماہ اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مغربی ممالک نے افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے تھے جبکہ دوسری جانب اسے ملنے والی غیر ملکی امداد کی ادائیگی بھی روک دی گئی ہے۔

طالبان قیادت اپنے انہیں وسائل کو آزاد کرنے کی امید میں سفارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے اپنی سطح پر کوششیں کر رہی ہے۔

ادھر مغربی ممالک اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ افغانستان کی نئی حکومت سے کس طرح نمٹا جائے اور کیا حکمت عملی اپنائی جائے۔ ان ممالک نے تعلقات استوار کرنے کے لیے بعض سخت شرائط کا تعین بھی کیا ہے جن کی تکمیل پر تعلقات کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اس کے تحت نئی حکومت میں تمام فریقوں کی شامل کرنے، خواتین اور خاص طور پر اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرنے جیسی شرائط شامل ہیں۔

طالبان پر ماورائے عدالت سزائے موت دینے کا الزام

برطانوی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ کسی سطح پر ایک ''ورکنگ ریلیشن'' قائم کر سکے تاکہ انسانی امداد کا راستہ ہموار رہے۔ تاہم یہ سب ایسے وقت ہو رہا ہے جب انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے طالبان پر اقلیتی طبقے ہزارہ سے تعلق رکھنے والے ایک درجن سے زائد افراد کو قتل کرنے کا الزم عائد کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق جن افراد کو موت کی سزا دی گئی ہے اس میں سے گیارہ افراد کا تعلق افغان کی سکیورٹی فورسز سے تھا اور ان میں بیشتر افراد نے اپنے آپ کوطالبان کے حوالے کیا تھا۔ طالبان نے جب سے کابل کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا ہے اس وقت سے ان پر ایسی بعض دیگر وارداتیں کرنے کا الزام بھی عائد کیا جا چکا ہے۔

ملک سے جو افغان شہری نکلنا چاہتے ہیں اس میں سے ایک بڑی تعداد ان افغان فوجیوں کی ہے جنہیں طالبان سے خطرہ لاحق ہے۔ گرچہ طالبان نے شروع میں عام معافی کا اعلان کیا تھا تاہم انہیں خوف ہے کہ طالبان انہیں بخشیں گے نہیں۔

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)

طالبان حکومت: تنوع کی کمی مایوس کن تھی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں