1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برسلز دھماکوں کی پہلی برسی، خصوصی تقریبات کا انعقاد

22 مارچ 2017

بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں دہشت گرد گروپ داعش کی طرف سے کیے گئے حملوں کو بدھ بائیس مارچ کے روز ایک برس مکمل ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں برسلز میں خصوصی تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2ZhLO
Brüssel Flughafen Zaventem Jahrestag Terroranschlag Gedenkfeier
تصویر: Getty Images/E. Dunand

ان تقریبات کے دوران اس عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ یورپ دہشت گردی کے آگے جھکا نہیں ہے۔ بیلجیئم کے بادشاہ فیلیپے کی سربراہی میں برسلز ایئرپورٹ پر 7:58 بجے (عالمی وقت کے مطابق 6:58) ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ 22 مارچ 2016ء کو ٹھیک اِسی وقت برسلز کے بین الاقوامی ایئرپورٹ پر پہلا خودکش دھماکا ہوا تھا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد ہی دوسرا دھماکا ہوا۔

برسلز ایئرپورٹ کے ڈیپارچر ہال کے سامنے منعقد کی گئی خصوصی تقریب میں بیلجیئم کے بادشاہ فیلیپے اور ملکہ ماتھیلڈے نے مرنے والوں کے لواحقین، متاثرین اور امدادی کاموں میں شریک ہونے والے افراد سے ملاقات کی۔ یہاں ہونے والے دو خودکش دھماکوں کے نتیجے میں 16 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس تقریب میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کیے جانے سے قبل مارے جانے والے افراد کے نام بلند آواز سے پڑھے گئے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بیلجیئم کے بادشاہ مال بیک میٹرو اسٹیشن بھی جائیں گے اور وہاں بھی مرنے والوں کی یاد میں حاضرین کے ساتھ 9:11 بجے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کریں گے۔ 22 مارچ کو مال بیک میٹرو اسٹیشن پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں بھی16 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جبکہ دونوں مقامات پر ہونے والے دھماکوں کے نتیجے میں 320 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

Brüssel Flughafen Zaventem Jahrestag Terroranschlag Gedenkfeier Charles Michel
برسلز ایئرپورٹ کے ڈیپارچر ہال کے سامنے منعقد کی گئی خصوصی تقریب میں بیلجیئم کے بادشاہ فیلیپے اور ملکہ ماتھیلڈے نے مرنے والوں کے لواحقین، متاثرین اور امدادی کاموں میں شریک ہونے والے افراد سے ملاقات کیتصویر: Getty Images/E. Dunand

آج برسلز میں ان دہشت گردانہ حملوں اور ان کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد تازہ کرنے کے سلسلے میں برسلز میں ٹرامیں اور بسیں بھی ایک منٹ کے لیے روک دی جائیں گی۔

بیلجیئم کی تاریخ کے ان بد ترین دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے اس یورپی ملک میں ایمرجنسی نافذ ہے جبکہ سکیورٹی اہلکار عوامی مقامات پر گشت کرتے نظر آتے ہیں۔ بیلجیئم کے وزیراعظم چارلس مشیل نے RTL ٹیلی وژن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ممکن ہے کہ ہم فوجیوں کو ابھی سڑکوں پر ہی رکھیں۔ میں قطعی طور پر یہ بتانے سے قاصر ہوں کہ ایک مہینے بعد یا تین مہینے بعد یا چھ مہینے بعد کیا صورتحال ہوگی۔‘‘

برسلز حملوں کی تفتیش کرنے والے والوں کے مطابق ان دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے بھی اُسی گروپ کا ہاتھ تھا، جو نومبر 2015ء میں پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کا ذمہ دار تھا جبکہ یہ گروپ دہشت گرد گروپ داعش کی اعلیٰ قیادت کے احکامات پر عمل کر رہا تھا۔