بجٹ خسارہ ، متعدد یورپی ممالک کو مہلت مل گئی
30 مئی 2013یورپی کمیشن نے متعدد یورپی ملکوں کو کفایت شعاری کے سخت منصوبوں میں نرمی کی اجازت دے دی ہے۔ فرانس، اسپین، پولینڈ اور سلووینیا کو بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے مزید دو سال دیے گئے ہیں۔ ہالینڈ، پرتگال اور بیلجئم کو ایک ایک سال جبکہ اٹلی، ہنگری رومانیہ اور بالٹک ریاستوں کا نام بجٹ خسارے کی نگرانی کے لیے ترتیب دی گئی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔
تین سال کے انتہائی بچتی اقدامات کے بعد یورپی یونین نے اپنی بچتی پالیسی میں تبدیلی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس دوران رکن ممالک کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنی توجہ اقتصادی شعبے کو ترقی دینے کے لیے تعمیری اصلاحات پر مرکوز کریں اور اس دوران بجٹ سے متعلق ضوابط کا بھی لازمی خیال رکھا جائے۔ یونین نے یہ قانون متعارف کروا رکھا ہے کہ کسی بھی رکن ملک کا بجٹ خسارہ اس کی مجموعی قومی پیداوار کے تین فیصد سے زائد کسی بھی طور پر نہیں ہو نا چاہیے۔
یورپی کمیشن کے سربراہ یوزے مانوئیل باروسو کے بقول یورو زون میں مقابلے کی فضا کو فروغ دینے کا یہ بہترین وقت ہے۔ یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی قوت جرمنی کا ذکر کرتے ہوئے باروسو کا کہنا تھا کہ تنخواہوں میں اضافے اور روزگار کی منڈی میں بھی اصلاحات لانا ضروری ہیں۔ یورپ میں بڑھتی ہوئی بے روز گاری، یورو زون میں مالی مشکلات اور حکومتوں کے مابین بڑھتی ہوئی مایوسی کے علاوہ عوامی سطح پر سخت بچتی اقدامات کی مخالفت کے بعد یورپی کمیشن نے متعدد ممالک کو خسارے کو کم کرنے کے اہداف حاصل کرنے کے لیے مزید مہلت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس حوالے سے دی جانے والی مہلت غیر مشروط ہے۔ مسلسل کئی سالوں سے یورو زون مالی بحران سے نکلنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے اور بے روزگاری کے بڑھتی ہوا شرح سماجی بدامنی کا سبب بن رہی ہے۔ یورپی کمیشن نے اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے پالیسی میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔ باروسو کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ تین سال کے بعد اقتصادی صورتحال بہتر ہوئی ہے ’’ہمیں سانس لینے کا موقع ملا ہے اور اس وقت کو طویل المدتی اصلاحات کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود بجٹ میں کٹوتیاں جاری رہیں گی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ یورپ کے کئی حصوں کو سماجی سطح پر ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے اور اس وجہ سے کچھ خطوں میں عدم مساوات بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ باروسو کے بقول ’’یہی وہ وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے ہم یہ اقدامات کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔‘‘
ai/ng (Reuters)