1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک وائرس جس سے کوئی عقیدہ محفوظ نہیں

16 مئی 2020

تمام مذاہب میں اجتماعیت اور میل ملاپ انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، مگر نئے کورونا وائرس کی وبا نے تمام مذاہب کی اس اساس ہی کو ہلا کر رکھ دیا ہے، کیوں موجودہ صورت حال میں ماضی کی طرز کے اجتماعات غیرمحفوظ ہیں۔

https://p.dw.com/p/3cK2O
Ramadan Gebet mit Mundschutz
تصویر: Getty Images/AFP/A. Amro

تنزانیہ کے صدر نے دعویٰ کیا کہ کورونا وائرس یسوع مسیح کے جسم میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اسرائیلی وزیر صحت نے ممکنہ کرفیو کے خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'مسیح آئے گا اور ہمیں بچا لے گا‘، ادھر مسلمانوں کی تبلیغی جماعت کے اجتماعات منعقد ہوئے، مگر اب ان پر دنیا بھر میں اس بیماری کے پھیلاؤ کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔
گو کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اہم مذہبی رہنماؤں نے حکومتوں کی جانب سے وبا کے انسداد کے لیے اجتماعات محدود کیے جانے کے اقدامات کی حمایت کی ہے، مگر کچھ مذہبی اقلیتیں ایسی بھی ہے، جو ان اقدامات کے خلاف ہیں۔ اس وقت بعض افراد کا موقف ہے کہ موجودہ صورت حال میں اجتماعی عبادت کی ضرورت نہیں اور یہ عبادت تنہا ہو سکتی ہے، مگر کچھ افراد اس سے اختلاف کرتے ہوئے مذہب کو سائنس سے بلند درجہ دیتے ہیں اور ان کے مطابق 'ایمان اور یقین‘ بیماری کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
وبا گو کے قومی سرحدیں یا رنگ و نسل دیکھے بغیر پھیلتی ہے اور اس وبا کے آغاز میں بہت کم ممالک نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے انسداد کے لیے سخت اقدامات یا لاک ڈاؤن کیے۔ تاہم وبا کے پھیلاؤ میں کلیدی کردار چوں کہ اجتماعات نے ادا کیا، اس لیے ماہرین کی جانب سے مسلسل مطالبات سامنے آتے چلے گئے کہ انسانی نقل و حرکت محدود کی جائے۔

کووڈ انيس، مذہب، اور زمین کی نجات

تبصرہ: کورونا وائرس میں مذاہب جیسے خاموش
مختلف مذاہب کی گو کہ بنیادی تعلیم دیگر انسانوں کی فلاح و بہبود ہے، مگر تمام ہی مذاہب میں ایسے افراد بھی موجود ہیں، جن کی نگاہ میں عبادت گاہ جانا ہر شے سے افضل ہے۔
تنزانیہ کے صدر جان ماگفولی نے گزشتہ ماہ ایک چرچ کا دورہ کیا اور وہاں کہا، ''مجھے یہاں آنے میں کوئی خوف نہیں تھا کیوں کہ وائرس کو ایمان کی طاقت سے شکست دی جا سکتی ہے۔‘‘
اسرائیلی وزیرصحت یاکوف لٹسمَن نے لاک ڈاؤن میں سیناگوگز (یہودی عبادت گاہیں) اور دیگر مذاہبی اداروں کو اجتماعات کی پابندی سے آزاد رکھنے پر اصرار کیا۔ اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق سماجی فاصلے کے ضوابط پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے وہ خود اس وائرس کا شکار ہوئے۔ لٹسماَن کو اب اسرائیلی میں سماجی فاصلے کے ضوابط کو مذہبی طبقے کی جانب سے سنجیدہ نہ لیے جانے اور خصوصاﹰ آرتھوڈاکس یہودی برادری میں اس وائرس کے پھیلاؤ کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ لٹسمَن کی مخالفت کے باوجود اسرائیل نے ملک بھر میں مذہبی تہوار کے موقع پر کرفیو نافذ کیا۔


دوسری جانب بھارت میں تبلیغی جماعت کو اس وقت شدید تنقید کا سامنا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس جماعت کے رہنما مولانا سعد کاندھلوی کی ایک مبینہ آڈیو وائرل ہے۔ اس آڈیو میں مولانا اپنے حامیوں سے کہتے سنائی دیتے ہیں کہ وہ مساجد میں اجتماعات کا سلسلہ جاری رکھیں۔ بھارتی تبلیغی جماعت کے امیر کہتے ہیں،''آپ مسجد میں جمع ہوں گے تو وائرس پھیلے گا، یہ جھوٹ ہے۔ اگر آپ مسجد میں آنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں، تو بھی مسجد موت کے لیے ایک بہترین جگہ ہے۔‘‘
تاہم بھارت میں تبلیغی جماعت کے ترجمان مجیب الرحمان نے کہا ہے کہ اس آڈیو کو 'سیاق و سباق سے ہٹ کر‘ پیش کیا جا رہا یے۔‘‘ یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان، انڈونیشیا اور ملائشیا میں بھی تبلیغی جماعت کے اجتماعات میں شریک افراد میں اس وائرس کی تصدیق کی گئی تھی۔ پاکستان میں ایران کے مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے جانے والے شیعہ زائرین میں بھی کورونا وائرس کے متعدد مریض سامنے آئے تھے۔ ابتدا میں ایران کی جانب سے مذہبی اجتماعات کو بھی سماجی فاصلے کی پابندیوں سے مبرا رکھا گیا تھا۔