1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک عام سے سفر کی روداد

16 اکتوبر 2020

پت جھڑ کے شروع ہوتے ہی فضا میں خشکی اور خنکی دونوں بڑھتی جا رہی تھیں۔ کورونا کی عالمی وبا کے باعث زندگی نیم مفلوجی کی سی کیفیت سے دوچار تھی۔

https://p.dw.com/p/3k0cc
Pakistan Karachi |  Bloggerin DW Urdu Bushra Pasha
تصویر: privat

صورتِ حال کافی مایوس کن تھی۔ ایسے میں میری دوست  نشو  شاہ کا فون کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ ہماری دوستی کئی سال پرانی ہے۔ نشو ایک نیم سرکاری ادارے میں ملازمت کرتی ہے اور اپنے علاقے میں تعلیم کا میعار بڑھانے کے لیے ہمہ تن کوشاں رہتی ہے۔ اس کا فون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

ارے ہاں یہ تو بتانا ہی بھول گئی کہ میری یہ پیاری دوست سہون میں رہتی ہے اور ہمیشہ مجھے اپنے شہر آنے کی دعوت بھی دیتی رہتی ہے۔ حالات اگر  اپنے پرانے ڈگر پر ہی ہوتے تو میں شاید میں کبھی یہ فیصلہ نہ لیتی۔ لیکن بوریت سے مجبور ہو کر اس مرتبہ میں نے سہون جانے کی حامی بھر ہی لی۔

آغازِ سفر سے پہلے بہت سوچ بچار کی کہ ان حالات میں سفر کس  طرح کرنا ٹھیک رہے گا۔ بہت سوچ بچار کے بعد میں نے  فیصلہ کیا کہ تمام حفاظتی تدابیر کے ساتھ میں پبلک بس میں سہون جاؤں گی۔  اور پھر یہ سفر شروع ہوا۔ اکیلے ایسے سفر کرتے ہوئے دل میں بہت سے خدشات اور توہمات  نے گھر کیا ہوا تھا، جو وقت کے ساتھ ساتھ دور ہوتے گئے۔

بس میں روانگی سے قبل جب ٹکٹ خریدا تو ٹکٹ فروش نے سوال کیا۔ باجی اکیلی ہو؟ میں نے اقرار میں سر ہلایا۔ اس نے قریب کھڑے  ایک آدمی کو اشارہ کیا اور کہا کہ باجی کا سامان اٹھا کر بس میں رکھ دو۔ اس نے بھی ایک پل کی دیر نہ لگائی اور جھپٹ کر میرا سامان اٹھا لیا۔ میں اس کے پیچھے بھاگی ۔ ارے رکو! میرا سامان لے کر کہاں جا رہے ہو؟

بس کے پاس پہنچ کر وہ رک گیا۔ اس نے جھک کر میرے سامان پر چاک سے نمبر  لکھا اور قدرے بے رخی سے مجھے جواب دیا، '' تمھارا سامان گاڑی میں رکھ رہا ہوں جا کر اندر پہلی سیٹ پر بیٹھ جاؤ۔‘‘سامان گاڑی میں رکھ کر وہ  لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ مدد فراہم کرنے کا سب کا اپنا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ میں بس میں بیٹھ گئی اور پھر رختِ سفر بندھ گیا۔ یہ ایک نان اے سی بس تھی اور کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ سامنے کی جانب ایک ٹی وی بھی نصب تھا جس پر  ممتاز مولائی کے دل جلے  اور مجبور عاشق  کی روداد پر مبنی گانے تیز آواز میں بج رہے تھے۔

میں نے بس میں بیٹھے افراد پر  ایک اچٹتی  ہوئی نظر ڈالی۔ اکثریت  ان گانوں سے محظوظ ہو رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں میرے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کی عورت آ کر بیٹھ  گئی۔ خدوخال اور پہننے اوڑھنے سے کسی گاؤں کی باسی معلوم ہو رہی تھی۔ اس کے ساتھ ایک بڑی سی کپڑے کی گٹھری بھی تھی جس کو جگہ بنا کر اس نے سیٹ کے نیچے رکھ دیا اور میری طرف مسکرا کر دیکھا۔ ''کہاں جا رہی ہو؟‘‘ اس نے مجھ سے سوال کیا۔ میں نے اس کو بتایا کہ میں سہون جا رہی ہوں۔ 

اور پھر اس نے مجھے بتایا کہ  اس کا تعلق سہون سے قریب ایک شہر بھان سعید آباد سے ہے۔ اس کا نام لچھمی تھا اور  وہ کپاس چننے کا کام کرتی تھی۔ لچھمی کے شوہر نے اس کو قریب آٹھ سال پہلے کسی دوسری عورت کے چکر میں چھوڑ دیا تھا۔ اس وقت اس کے سات چھوٹے چھوٹے بچے تھے جن کی مکمل ذمہ داری لچھمی نے خود سنبھال رکھی تھی۔

میں بہت غور سے اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔  اس کا لہجہ اور باتوں کی گہرائی دل کو چھو رہی تھی۔ ''میں نے ہر مشکل سے لڑ کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالا ہے تجھے کیا کیا بتاؤں؟''  اس کی آنکھوں کی  گہرائی اور ان میں بھرے آنسو شاید اس بات کے گواہ تھے کہ زندگی کی اس لڑائی میں وہ اکیلی بہت محازوں پر بے جگری سے لڑی ہے۔ 

کراچی سے سہون کا راستہ بہت ہرا بھرا تو نہیں ہے لیکن بڑا  ہی پرسکون ہے۔ راستے بھر اطراف میں چٹیل میدان آتے رہتے ہیں اور سہون کے قریب پہنچتے ہوئے  پہاڑوں اور ٹیلوں کا  ایک خوبصورت سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو آپ کو اپنےساتھ لے کر ہی سہون پہنچتا ہے۔  سہون آ گیا تھا۔ میں نے لچھمی کو الوداع کہا اور بس سے اتر گئی۔

کچھ دور ہی ایک موٹر سائیکل رکشے میں نشو میری منتظر تھی۔ اتنے عرصے کی بوریت اور اتنی طویل مسافت کے بعد اپنی پیاری سہیلی کو  دیکھ کر  شائد ساری تھکن  زائل ہو چکی تھی۔ سماجی فاصلے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے گلے ملنے کا ارادہ ترک کیا اور اچک کر  رکشے  بیٹھ گئی۔ کراچی کی نسبت سہون میں کافی گرمی تھی۔

 رکشہ شاہراہ سے اندرونِ شہر کی طرف مڑ گیا تھا۔ اس شہر میں سکون کا عنصر بہت  واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا تھا۔  بڑے شہروں کی نسبت یہاں بھیڑ بھاڑ، شور و غل کم دیکھنے کو ملا۔ ادھر ادھر لوگ اپنی دھن اور اپنے کام میں مگن نظر آئے۔ نشو نے بتایا کہ یہاں سب سے زیادہ رش شہباز قلندر کے میلے میں ہوتا ہے۔ دنیا بھر سے زائرین یہ میلہ دیکھنے آتے ہیں۔ رکشہ تنگ گلیوں سے گزرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔

اچانک سماں تھوڑا بدل سا گیا۔ ڈھول پیٹنے کی آوازیں، بریانی کی خوشبو، لال شربت کی سبیلیں نظر آنے لگیں۔ پتا چلا کہ ہم حضرت لعل  شہباز قلندر کے مزار کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ منظر بڑا اچھوتا تھا  لیکن میرا تھکن  اور بھوک سے برا حال تھا۔ اس لیے سیدھا گھر پہنچنے کی ٹھان لی۔  اس سے تھوڑا ہی آگے نشو کا گھر تھا۔

رکشہ گھر کے احاطے میں داخل ہو گیا تھا۔ میرے حساب میں یہ گھر کم اور ایک چھوٹی سی کالونی زیادہ تھی۔ رکشہ بدستور آہستہ آہستہ چل رہا تھا اور میں دیکھ رہی تھی کہ گھر کےبیرونی اطراف میں ہوٹل اور دکانیں اور اندر بیٹھک، بڑی سی کار پارکنگ، آبائی قبرستان اور راہداریوں اور کمروں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ رکشہ رک گیا تھا۔

ہم رکشے سے اترے  اور ایک راہداری میں اندر کی جانب چل پڑے۔ نشو نے مجھے اپنا کمرہ دکھایا اور کہا ،''تم اسی کمرے میں میرے ساتھ رہوگی ۔‘' تھوڑی دیر میں دسترخوان بھی بچھ گیا۔ ''آج کھانے میں بھنڈی کی سبزی ، دال اور روٹی بنی ہے۔ تم کو ضرور پسند آئے گی۔'' منہ ہاتھ دھو کر جب دسترخوان پر آئی تو بھوک بھی خوب چمک چکی تھی۔

ہم نے مزے لے لے کر کھانا کھایا۔ واقعی اتنے مزے کی دال اور بھنڈی میں نے شاید پہلے نہ کھائی تھی۔ تھکن اور پیٹ بھر کر کھانے کے باعث مجھ پر شدید نیند کا غلبہ طاری ہوگیا۔ میں فورا ہی نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔ 

جب آنکھ کھلی تو اندھیرا ہوچکا تھا۔ نشو اور اس کی بہنیں میرے ارد گرد ہی بیٹھیں تھیں۔ "اٹھ گئیں باجی؟ میں بس جلدی سے آپ کے لئے چائے بنا کر لاتی ہوں۔"  اور پھر آن کی آن میں چائے بھی حاضر ہوگئی۔ 

اتنے پیارے سیدھے سادھے لوگوں کے درمیان دل بہت خوش تھا۔ ان کا بس ہی نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح  مجھے خوش سے خوش تر رکھ سکیں۔ اور بس پھر بجلی چلی گئی۔  ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ کیا ہوگا کہ اتنے میں باہر سے آواز آئی کہ صحن میں چارپا ئیاں بچھا دی گئیں ہیں اور پردے کا بھی بندوبست ہوگیا ہے۔ ہم  سب  چائے لے کر باہر آگئے۔ یہ صحن محض صحن کا مصرف نہیں اداکر رہا تھا بلکہ یہ تو اس گھر کی ثقافت میں اہم کردار ادا کر رہا تھا۔

گھر کا یہ حصہ خواتین  کے لیے ہی مختص تھا ۔ یہ ان کا باورچی خانہ، آرٹ اسٹوڈیو، تھیٹر، سنیما سب کچھ تھا۔ ایک طرف کھانا پک رہا تھا۔ خواتین  چولہے کے پاس نیچے بیٹھی کھانا پکانے اور باتوں میں مگن تھیں۔ دوسری طرف بچیاں گانے گا کر کے ایک دوسرے کو محظوظ کر رہیں تھیں۔ تاروں بھری رات  میں یہ دلکش  مناظر دل کو بہت لبھا رہے تھے۔  

دور کونے میں مدہم سی روشنی  میں ایک خاتون  کچھ کام  کرتی نظرآ رہی تھی۔  میں نے نشو سے پوچھا یہ اتنے اندھیرے میں کیا کر رہی ہیں ۔  اس نے بتایا یہ کپڑوں پر کشیدہ کاری کرتی ہیں اور اسی سے ان کی گزر بسر ہوتی ہے۔  رات یونہی باتوں میں گزر گئی لیکن ان کشیدہ کاری بنانے والی خاتون سے ملنے کا شوق دل میں باقی تھا۔

مجھے پھر سے وہ بس والی لچھمی بھی یاد آئی جو اپنے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں کے باوجود  اپنے حالات کا مقابلہ کر رہی تھی۔ تصویر کا یہ رخ  ہم  میں سے بہت کم لوگوں نے اتنے قریب  دیکھا ہوگا۔ صبح سویرے نشو کے ہمراہ اس کا کام نمٹایا۔ اس کے فورا بعد میں نے اس سے کہا کہ مجھے ان کشیدہ کاری بنانے والی خاتون سے ملوا دے۔

نشو زیرِ لب مسکرائی اور مجھے اپنے پیچھے چلنے کا اشارہ کیا۔ اسی راہداری میں چار کمرے چھوڑ کر ایک  کمرے میں لے گئی۔ ' صفیہ ! دیکھو تم سے ملنے کون آیا ہے؟‘ نشو نے اس خاتون کو مخاطب کیا۔ ''اب تم دونوں باتیں کرو۔ میں ذرا دوسرے کام نمٹا لوں۔ ‘‘

صفیہ  نے مسکرا کر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اپنے کا م میں مشغول ہوگئی۔ پھر صفیہ سے اسی کی زبانی اس کی کہانی سنی۔ بظاہر دوشیزہ سی دکھنے والی صفیہ پانچ بیٹوں کی ماں ہے۔ لیکن  قسمت کی ستم ظریفی کہ اس کا شوہر اس سے بچے چھین کر دوسری شادی کر چکا ہے اور وہ اپنی گزر بسر کے لیے  کپڑوں پر  دھاگوں سے رنگ بکھیرتی رہتی ہے۔

شاید اسی طرح اس میں جینے کی رمق باقی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ قمیضیں، تکیے کے غلاف،  بستر کی چادریں ، دسترخوان، نوزائیدہ بچوں کے بستر وغیرہ بناتی ہے۔ ''کتنے پیسے کما لیتی ہو مہینے بھر میں؟‘‘ میرے اس سوال کے جواب میں صفیہ مسکرائی اور کہنے لگی ''اتنے کہ بس  اپنے لیے شیمپو اور کریم خرید لوں اور جب اپنے بچوں سے ملنے جاؤں تو ان کے لیے ایک جیسے پانچ تحفے خرید لوں۔ باقی میرا کھانے پینے اور رہنے سہنے کے خرچے سب میرے بھائی اٹھاتے ہیں۔ میں یہ کام اپنے آپ کو مصروف رکھنے اور اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرنے کے لیے کرتی ہوں۔ کیا کروں ماں ہوں ناں۔‘‘

صفیہ اس وقت بھی  بیٹھی  کشیدہ کاری ہی کر رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں دروازے پر دستک ہوئی ۔ صفیہ اٹھ کر دروازے  تک گئی اور میں اس کا کام دیکھنے میں مشغول ہوگئی۔  اس کے ہاتھ میں واقعی جادو تھا۔ اس مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ اس نے ان پھول پتوں میں رنگ بکھیرے تھے کہ آنکھوں کو گمان ہوتا تھا کہ یہ دھاگے کا کام نہیں بلکہ کپڑے پر چھپائی کی گئی ہے۔  میری نظر اس کے ٹانکوں پر ٹہر  ہی نہیں پا رہی تھی۔  ''صفیہ کچھ میرے لیے بھی بنا دو گی؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔ ''بالکل!  کیوں نہیں باجی  میں ضرور بنا کر دوں گی۔‘‘ 

ایک بار پھر دروازے پر دستک ہوئی اور  اس دفعہ صفیہ میرے لیے گرما گرم چائے کا کپ اور ساتھ میں  پاپڑ اور  گڑ بھی لے کر آئی۔ اس کی مہمان نوازی  دیکھ کر میرا دل اور پگھل گیا۔ میں سوچ  رہی تھی کہ  واقعی دل کی امیری اسے کہتے ہیں۔ میں نے چائے پی کر صفیہ سے اجازت چاہی اور واپس نشو کے کمرے کی طرف چل پڑی۔

میں نے بہت تھوڑے وقت میں زندگی کو بہت قریب سے دیکھ لیا۔ اس پورے سفر نے میرا زندگی کو دیکھنے کا زاویہ کافی حد  تک بدل دیا تھا۔یہاں بھی زندگی آسان نہ تھی۔  واقعی زندہ رہنے کے لیے انسان کو بہت کرب سے گزرنا پڑتا ہے اور پھر شہر بڑا ہو یا چھوٹا، انسانی  فطرت  اور حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ہر جگہ ہر حال میں موجود ہونا چاہیے۔

لچھمی سے نشو اور پھر صفیہ تک کا سفر مجھے ان خواتین کے ہمت، حوصلے اور انتھک محنت کے جذبے کو داد دینے پر مجبور کرتا رہا۔  وقت کے ہاتھوں مجبور تھی اور اب گھر کی یا د بھی ستا رہی تھی۔ جس کام کے لیے یہاں تک آئی تھی وہ بھی مکمل ہو گیا تھا اور اب واپس کراچی جانے کا وقت ہوا جا رہا تھا۔

میں نے اپنی سہیلی سے اجازت چاہی ۔ واپسی پر مجھے نشو اور اس کے گھر والوں نے بہت سے تحائف سے نوازا۔ ان میں صفیہ کے ہاتھ سے بنا تکیے کا غلاف، رلی، روٹی رکھنے کی بان سے بنی ٹوکری، سرسوں کا خالص تیل اور  گھر کا بنا اصلی  گھی بھی شامل تھا۔ میری آنکھیں پر نم تھیں۔ ان محبتوں کا واقعی کوئی نعم البدل نہیں تھا۔ میری دعا ہے کہ ہماری دوستی اسی طرح قائم رہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں