1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

این ایس اے نے یاہو اور گوگل کے سرورز ہیک کیے، واشنگٹن پوسٹ

شامل شمس31 اکتوبر 2013

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے امریکی انٹیلجنس ادارے این ایس اے کے سابق کانٹریکٹر سنوڈن کی جانب سے منظر عام پر لائی جانے والی دستاویزات کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکا نے گوگل اور یاہو کے انٹرنیٹ ڈیٹا کی بھی نگرانی کی۔

https://p.dw.com/p/1A9Me
REUTERS/Mike Blake/Files
تصویر: Reuters

امریکا کو انتہائی مطلوب ایڈورڈ سنوڈن ان دنوں روس میں عارضی پناہ لیے ہوئے ہیں لیکن ان کی جانب سے کیے گئے انکشافات ہر روز ایک ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ گو کہ سنوڈن کی طرف سے لِیک کی جانے والی امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی یا این ایس اے کی دستاویزات میں اس خفیہ ادارے کی جانب سے انٹرنیٹ ڈیٹا کی جاسوسی سے متعلق خبریں پہلے ہی منظر عام پر آ چکی ہیں، واشنگٹن پوسٹ نے اب ایک نئی رپورٹ میں لکھا ہے کہ این ایس اے نے اس کیبل تک بھی رسائی حاصل کر لی تھی جو کہ انٹرنیٹ ٹریفک کو ایک ٹیلی کمیونیکشن پرووائڈر کے ذریعے رواں رکھتا ہے۔

انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل کے مرکزی قانونی افسر ڈیوڈ ڈرمونڈ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ وہ اس بات پر غصے میں ہیں کہ اتنے وسیع پیمانے پر ڈیٹا کو ہیک کیا گیا ہو۔

گوگل کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں واقف نہیں تاہم کچھ عرصے قبل اس نے اس نے انٹرنیٹ ٹریفک پر کوڈ لگانے کا عمل شروع کیا ہے۔

این ایس اے کے ایک ترجمان کا کہنا ہے، ’’یہ بات غلط ہے کہ ہم نے وسیع پیمانے پر امریکی عوام کے انٹرنیٹ ڈیٹا کی نگرانی کی۔ این ایس اے کا کام غیر ملکی خطرات کی نگرانی ہے۔‘‘

این ایس اے کے ڈائریکٹر جنرل الیگزینڈر کیتھ نے بھی اس رپورٹ کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ ہمیں گوگل کے سرورز تک رسائی حاصل نہیں ہے۔‘‘

انٹرنیٹ کمپنی یاہو کی ایک ترجمان کا کہنا ہے، ’’ہم نے اپنے ڈیٹا سینٹرز کو کنٹرول میں رکھا ہوا ہے اور ان تک این ایس اے یا کسی اور حکومتی ایجنسی کی پہنچ نہیں ہے۔‘‘

دوسری جانب این ایس اے کی جانب سے عالمی رہنماؤں کی فون کالز کی نگرانی کے تنازعے نے ان دنوں خاصی ہلچل مچائی ہوئی ہے۔

گزشتہ ہفتے جرمن اخبار ڈيئر اشپيگل کی ايک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ امريکی خفيہ ادارے سن 2002 سے جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کی جاسوسی کر رہے ہيں۔ اسی رپورٹ ميں يہ بھی لکھا ہے کہ ’اوباما نے ميرکل سے کہا کہ اگر انہيں اس بات کا علم ہوتا، تو وہ اس عمل کو رکوا ديتے۔‘ ان رپورٹوں کے سامنے آنے کے بعد جرمن حکومت نے امریکا سے اپنی برہمی کا اظہار کیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید