1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشیا میں کورونا کی تبدیل شدہ اشکال، دنیا کے لیے خطرہ

2 جون 2021

جینوم ڈیٹا بیس کے مطابق اس وقت ’سارس کوو ٹو‘ کی ایک ہزار سے زائد تبدیل شدہ اشکال منظر عام پر آ چکی ہیں۔ تمام تر کوششوں کے باوجود کورونا وائرس کی تبدیل شدہ اشکال مستقبل میں بھی انسانوں کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3uMGz
Illustration eine Coronavirus-Mutation
تصویر: DesignIt/Zoonar/picture alliance

کورونا وائرس کی وبا سے پھیلنے والی بیماری کووڈ انیس سے کئی لاکھ انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ اس وائرس کی مختلف تبدیل شدہ صورتیں بھی سامنے آتی جا رہی ہیں۔ ایسے ویریئنٹس کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ان ویریئنٹس کی پہچان کے لیے اب ان کے نام رکھنا شروع کر دیے ہیں۔

ہم کورونا کی وبا کے خلاف حالت جنگ میں ہیں، انٹونیو گوٹیرش

ویریئنٹس کی شناخت کا نظام

عالمی ادارہٴ صحت نے کورونا وائرس کے ویریئنٹس کی شناخت یونانی حروف تہجی سے کرنے کا نظام متعارف کرایا ہے۔ ایک حروف تہجی میں ایک جیسی خاصیتوں کے حامل ویریئنٹس رکھے جائیں گے۔ اس نظام کے تحت برطانوی، جنوبی افریقی اور بھارتی ویریئنٹس کو الفا، بیٹا اور گیما کا نام دیا گیا ہے۔ ایسے نام رکھنے کی وجہ ان کے مشکل اور پیچیدہ سائنسی نام ہیں۔

Infografik SARS-CoV-2 neue Namen für Varianten EN
کورونا وائرس کے مختلف ویریئنٹس کے ناموں کی تفصیل

کورونا وائرس کا نیا ویریئنٹ ویتنام میں دریافت ہوا ہے۔ یہ ایلفا اور ڈیلٹا ویریئنٹس کے ملاپ سے پیدا ہوا ہے۔ اس نے گزشتہ ماہ مئی میں تیزی سے پھیلنا شروع کیا تھا لیکن ملکی طبی حکام کے بروقت اقدام سے اس پر قابو پا لیا گیا ہے۔ اب تک قریب ساڑھے تین ہزار افراد میں اس کی نشاندہی ہوئی ہے۔ نئے ویریئنٹ سے سینتالیس ویتنامی شہریوں کی موت ہوئی۔

بھارت: کورونا سے ہزاروں یتیم ہوجانے والے بچوں کے مسائل

وبا اور ویریئنٹس کا تعین

یہ کہا جا سکتا ہے کہ ویریئنٹس سے بیمار ہونے والے افراد کی تعداد کسی حد تک بعض ممالک میں کم ہے۔ اس کے باوجود ایشیا اور دوسرے براعظموں میں ان کی افزائش پر تشویش ضرور پائی جاتی ہے۔ ان ویریئنٹس کی وجہ سے وبا میں تسلسل پایا جاتا ہے، جو اقوام میں محرومی کا باعث بن رہا ہے۔

ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ ویکسینیشن کے باوجود شمالی نصف کرے یعنی آسٹریا، فرانس اور جرمنی کے ساتھ کئی یورپی ممالک اور چین بشمول کینیڈا و امریکا میں ویریئنٹس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اگر ان تیزی سے پھیلتے ویرئنٹس نے انسانی جسم میں افزائش پانی شروع کر دی تو ویکسین کے اثرات زائل ہونا شروع ہو جائیں گے اور ایک متبادل ویکسین کی ضرورت ہو گی۔

’کورونا کے آغاز کی تلاش کا عمل سیاست سے زہر آلود ہو رہا ہے‘

مختلف ویریئنٹس اور ویکسین

ایسے شواہد موجود ہیں کہ وائرس کی ہیت میں تبدیلی کی ابتدا ایشیائی ممالک سے ہوئی ہے۔ ان میں سری لنکا اور کمبوڈیا جیسے ممالک سرفہرست ہیں۔ ان میں پیدا ہونے والے ویریئنٹس کو ایلفا کا نام دیا گیا ہے۔ ان کے خلاف بائیو این ٹیک فائزر ویکسین ایک مناسب ہتھیار ہے۔ ایسٹرا زینیکا ویکسین بھی مؤثر ہو سکتی ہے۔ نیپال میں دستیاب کورونا وائرس کا ویریئنٹ ڈیلٹا کیٹگری میں آتا ہے اور اس کا پھیلاؤ بھی تیزی سے ہوا۔ آبادی کے تناسب سے نیپال کی صورت حال بھارت سے بھی زیادہ شدید ہے۔

کورونا وائرس کی نئی بھارتی قسم، برطانیہ جرمنی کے لیے خطرہ؟

ڈیلٹا کیٹیگری کے وائرس کی موجودگی ویتنام میں بھی پائی گئی ہے اور وہاں ایسٹرا زینیکا ویکسین نے ویریئنٹ کا بھرپور مقابلہ کیا ہے۔ اس وقت کئی ادارے اس ریسرچ میں مصروف ہیں کہ کونسی ویکسین کس ویریئنٹ کے خلاف مؤثر ہو سکتی ہے۔ بنگلہ دیش میں بیٹا کیٹگری کا ویریئنٹ پایا گیا ہے اور اس ملک میں ایسٹرا زینیکا ویکسین کی کارکردگی قدرے کم رہی ہے۔ اب یہ اہم ہو گیا ہے کہ درست ویکسین ہی ایک مخصوص ویریئنٹ کا مقابلہ بخوبی کر سکتی ہے۔

الیگزانڈر فروئنڈ (ع ح، ا ا)