ایرانی صدارتی انتخابات: احمدی نژاد دوبارہ منتخب
13 جون 2009وزارت داخلہ کے مطابق احمدی نژاد کو تقریبا 63 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ موسووی کو 33 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ایران میں 46 ملین افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہے۔ جبکہ ٹرن آؤٹ 85 فیصد بتایا گیا۔
ایران کے سپریم لیڈر آئیت اللہ خامنائی نے احمدی نژاد کو دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔ انہوں نے احمدی نژاد کے حریفوں پر زور دیا کہ انتخابی نتائج قبول کریں اور اشتعال انگیز رویہ ترک کریں۔
موسووی نے انتخابی عمل میں بے ضابطگیوں کا الزام بھی لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ بیشتر لوگ حق رائے دہی استعمال نہیں کر سکے جبکہ بعض پولنگ اسٹیشنوں پر بیلٹ پیپرز کم پڑ گئے۔
واشنگٹن میں نیشنل ایرانی امریکن کونسل کی صدر تریتا پارسی کہتے ہیں کہ احمدی نژاد کے جس اکثریت سے جیتنے کی بات ہو رہی ہے وہ غیریقینی ہے۔ ایسا دھاندلی کے بغیر ممکن نہیں۔
نتائج موسووی کے حامیوں کے لئے مایوس کن رہے ہیں۔ وہ غم و غصے کے اظہار کے لئے سڑکوں پر نکل آئے۔ ہفتے کو تہران میں بیشتر مقامات پر موسووی کے حامیوں اور پولیس کے درمیان چھڑپیں بھی ہوئیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات پر قابو پانے کے لئے دارالحکومت میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں نے احمدی نژاد کے دوبارہ انتخاب کو مغربی طاقتوں کے لئے مایوس کن قرار دیا ہے جو ایران کو اپنا جوہری پروگرام روکنے پر قائل کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ پیش رفت امریکی صدر باراک اوباما کی ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کے لئے بھی ٹھیک نہیں۔ تاہم ایران کے صدارتی انتخابات کے نتائج سے قبل اوباما نے ایک بیان میں کہا کہ ان کی انتظامیہ ایران میں جاری بحث پر توجہ دے رہی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس سے دونوں ملکوں کو نئی راہیں متعین کرنے میں مدد ملے گی۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ احمدی نژاد کی جیت سے ایران اور بھی خطرہ بن گیا ہے۔ لندن میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے مارک فٹزپیٹرک کہتے ہیں کہ احمدی نژاد کی انتخابی کامیابی ایران کے جوہری تنازعے کے جلد حل کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
اس صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ دُنیا بھر کی نظریں ایران کے صدارتی انتخابات پر لگی ہیں جبکہ انتخابات کے ٹرن آؤٹ سے اندرون ملک بھی عوام کی دلچسپی کا اندازہ ہوا۔ ان انتخابات سے سیاسی دھڑوں میں پائے جانے والے اختلافات بھی کھل کر سامنے آئے۔
احمدی نژاد نے اپنے حریفوں پر الزام عائد کیا کہ وہ مغرب کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے اصولوں کو اپناتے ہوئے قومی تشخص کو نقصان پہنچا رہے ہیں جبکہ احمدی نژاد کے حریف سابق وزیر اعظم میر حسین موسووی کا کہنا ہے کہ قدامت پسند صدر نے اپنی انتہاپسند خارجہ پالیسی کے ذریعے ایرانیوں کی تذلیل کی۔
52 سالہ احمدی نژاد نے چار سال قبل 1979 کے اسلامی انقلاب کی بحالی کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے تیل برآمد کرنے والے دُنیا کے چوتھے بڑے ملک کی صدارت کا منصب سنبھالا تھا۔ انہوں نے ملک کے جوہری پروگرام کی توسیع کی، ان مغربی الزامات کو رد کیا کہ اس منصوبے کا مقصد جوہری ہتھیاروں کی تیاری ہے۔ ہولوکوسٹ کا انکار اور اسرائیل کے خلاف سخت بیانات کے ذریعے بھی انہوں نے عالمی طاقتوں کو ناراض کیا۔