’ایرانی حکومت عوام کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گی‘
2 مارچ 2011یہ دونوں رہنما گزشتہ دو ہفتے سے بھی زائد عرصے سے اپنے گھروں پر نظر بند ہیں۔ ایک سابقہ ایرانی سفارت کار کا کہنا ہے کہ ایرانی قیادت اپنے ہی لوگوں کو ’ذبح‘ تو کر دے گی تاہم عرب دنیا میں حالیہ عوامی تحریکوں سے متاثرہ کسی بھی مقامی تحریک کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے گی۔
احمد مالکی نامی یہ سفارت کار اطالوی شہر میلان میں نائب قونصل جنرل کے طور پر ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے تاہم اب وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں چھوڑ کر فرانس میں ہی مقیم ہوگئے ہیں۔ وہ سبز لہر نامی اس تحریک سے بھی جُڑ گئے ہیں جس میں ان جیسے متعدد سابقہ حکومتی عہدیداران تہران کے سخت گیر موقف والے حکمرانوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔
2009ء میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد جب دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہوئے تو ان کے حریف میر حسین موسوی کے حامیوں نے زبردست مظاہرے کیے تھے۔ حکومتی فورسز کی کارروائیوں کے بعد یہ مظاہرے تھم گئے تھے۔
موسوی نے گزشتہ ماہ کی 14 تاریخ کو ایک بار پھر عوام کو اٹھ کھڑے ہونے کا کہا تھا جس کے بعد سے انہیں ان کے گھر پر نظر بند رکھا جا رہا ہے۔ 14 فروری کو اپوزیشن کی کال پر حکومت مخالف مظاہروں میں دو افراد مارے گئے تھے۔
منگل یکم مارچ کو تہران میں کیا گیا مظاہرہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ حکومت کے مخالفین کی ایک ویب سائٹ کے مطابق موسوی اور کروبی کو ان کے اہل خانہ کے ہمراہ جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ حکام اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ دونوں رہنما اپنے اپنے گھروں میں نظر بند ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کو دیے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں مالکی نے بتایا کہ ایرانی عوام تیونس، مصر اور لیبیا کی عوامی تحریکوں سے بہت متاثر ہیں تاہم انہیں ان عرب ممالک کے برعکس اپنے ہاں زیادہ ’ظالم انتظامیہ‘ کا سامنا ہے۔ ’’گزشتہ 32 برسوں کے دوران تہران انتظامیہ کا واحد مقصد یہی رہا ہے کہ اقتدار سے منسلک رہا جائے۔‘‘
سابق ایرانی سفارت کار احمد مالکی کے بقول ان جیسے کئی اعلیٰ سول اور فوجی عہدیداران تہران حکومت سے ناخوش ہیں اور اسے چھوڑنے کے لیے درست وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: مقبول ملک