ایرانی جوہری سائنسدان لاپتہ، تہران کا واشنگٹن پر الزام
13 اکتوبر 2009ایرانی ایٹمی سائنسدان شاھرم امیری کو گم ہوئے چار ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور کسی کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں ؟ ایرانی سائنسدان 31 مئی کو حج کرنے کے لئے سعودی عرب گئے تھے اور وہاں پہنچنے کے تین دن بعد انہوں نے تہران میں اپنی اہلیہ سے بات کی تھی۔ یہی ان کا آخری رابطہ تھا۔ حقیقت میں کسی بھی آدمی کا کھونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں کہ جو گم بھی ہوتے ہیں اور بعد میں مل بھی جاتے ہیں۔ لیکن شاھرم امیری کوئی عام آدمی نہیں تھے۔ وہ ایرانی ایٹمی ادارے سے منسلک تھے۔ ایک ایرانی ویب سائٹ "جہاں نیوز" کے مطابق شاھرم امیری یورینیم افزودہ کرنے والے اس پلانٹ میں بھی کام کر چکے ہیں جو کہ قم کے نزدیک واقع ہے۔
امریکہ اور دنیا کو اس پلانٹ کے بارے میں ابھی 3 ہفتے پہلے ہی علم ہوا ہے۔ امریکی صدر باراک اوبامہ نے اس پلانٹ کا ذکر جی۔20 کانفرنس میں کیا تھا۔ آخر امریکہ کو یورینیم افزودہ کرنے والے اس پلانٹ کا کیسے پتہ چلا ؟ کیا امریکہ نے شاھرم امیری کو اغوا کر لیا ہے اور یہ معلومات انہی سے حاصل کی ہیں ؟ یا پھر امیری خود بھاگ کر امریکہ چلے گئے ہیں؟
حال ہی میں ایرانی وزیرخارجہ منوچہرمتقی نے اس بارے میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون سے بھی بات کی ہے۔ وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ سائنسدان کے گم ہونے میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔ جبکہ امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ انہیں اس نئے ایرانی پلانٹ کے بارے میں معلومات مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں اور مختلف ذرائع سے حاصل ہوئیں ہیں۔ لیکن کیا ان ذرائع میں امیری بھی شامل ہے؟
تاہم امیری کوئی پہلے ایرانی نہیں ہے جو کہ غیر ملکی سفر پر گئے اور غائب ہو گئے۔ اس سے پہلے سن 2 ہزار سات میں قائم مقام وزیر خارجہ جنرل علی رضا عسکری ترکی کے سفر پر گئے تھے اور واپس نہیں آئے تھے ۔کچھ ہی عرصے بعد امریکی اخباروں نے دعوی کیا تھا کہ عسکری نے امریکہ کو نہایت ہی اہم معلومات فراہم کی ہیں۔
ایک عربی اخبار "اشّرق الاسّوت " کے مطابق ایک ہفتہ قبل ایک ایرانی تاجر جارجیا میں گم ہو گیا تھا۔اخبار کے مطابق وہ اسلحے کا کاروبار کرتا تھا۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عدنان اسحاق