ایران: ہلاک شدگان کی یاد میں ایک روزہ سوگ
18 جون 2009ملکی اپوزیشن کی طرف سے قومی سطح پر ایک دن کا یہ سوگ منانے کا اعلان صدارتی انتخابات میں ناکام رہنے والے امیدوار موسوی نے کیا، جس دوران انہوں نے اپنے حامیوں سے اپیل کی کہ وہ پورے ملک میں عوامی مقامات یا مسجدوں میں جمع ہوں اور پر امن احتجاجی مظاہرے کریں۔
ایران میں سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ جمعہ کے روز منعقدہ صدارتی انتخابات کے اولین نتائج آنے کے بعد سے ہی خاص طور پر تہران میں موسوی کے حامیوں نے جو وسیع تر مظاہرے شروع کردئے تھے، ان میں کُل سات افراد ہلاک اور کئی دیگر زخمی ہوئے تھے۔
اس حوالے سے میر حسین موسوی نے اپنی انٹرنیٹ ویب سائٹ پر اپنے حامیوں سے جمعرات کو یوم سوگ منانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ صدارتی الیکشن کے نتائج کے خلاف احتجاج کرنے والے شہریوں کے ساتھ نیم فوجی دستوں کے پرتشدد اور غیر قانونی تصادم کے واقعات کئی ایرانی باشندوں کی ہلاکت یا ان کے زخمی ہونے کا باعث بنے۔ اس لئے ہلاک شدگان اور زخمیوں کے خاندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ایرانی عوام کو ایک دن کا سوگ مناتے ہوئے مسجدوں میں جمع ہونا چاہئے اور پرامن احتجاجی مظاہرے کرنے چاہیئں۔
ایران میں، جو تیل برآمد کرنے والا دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک ہے اور جس کا متنازعہ ایٹمی پروگرام پہلے ہی بین الاقوامی برادری کے ساتھ طویل کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے، صدارتی الیکشن کے بعد احتجاجی مظاہروں، بعد کے خونریز واقعات اور پھر میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیوں کی بناء پر داخلی سیاسی صورت حال مسلسل کشیدہ چلی آرہی ہے۔ ان حالات میں یہ خدشہ بھی ہے کہ آج جمعرات کو یوم تعزیت کے موقع پر حالات مزید خراب بھی ہو سکتے ہیں۔
دریں اثناء میر حسین موسوی کی ویب سائٹ کے ذریعے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایران میں اصلاحات پسند مذہبی قوتوں نے تہران کے گورنر کو یہ درخواست کی ہے کہ انہیں ہفتہ کے روز ملکی دارالحکومت میں ایک عوامی ریلی کی اجازت دی جائے جس میں اب تک کے پروگرام کے مطابق میر حسین موسوی اور سابق اصلاحات پسند صدر محمد خاتمی بھی شرکت کریں گے۔
ایران میں انتخابات کے بعد پیش آنے والے خونریز واقعات کی باز گشت کل بدھ کے روز یہاں جرمنی میں برلن کی وفاقی پارلیمان میں بھی سنائی دی۔ ایران کی داخلی سیاسی صورت حال پر بحث کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلیمان نے کھل کا اپنی رائے کا ظہار کیا۔ اس دوران چانسلر انگیلا میرکل کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان اور خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے قدامت پسند سربراہ رُپریشت پولینس نے کہا کہ "ایران میں حالیہ صدارتی انتخابات شروع سے ہی کوئی جمہوری الیکشن نہیں تھے۔ یہ ایک باقاعدہ انتظام کردہ سیاسی عمل تھا۔ انتخابی امیدواری کے خواہش مند سیاستدانوں کی تعداد 400 سے زائد تھی جن میں سے صرف چار کو حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔"
جرمن پارلیمان میں ایران کی موجودہ صورت حال کے بارے میں بحث کے دوران ساری ہی سیاسی جماعتوں کے مقررین نے امید ظاہر کی کہ وہاں آئندہ دنوں میں حالات پر امن رہیں گے، تاہم انتخابی عمل میں مبینہ دھاندلیوں کی شدت اور نوعیت، اور اِس پر رد عمل کے بارے میں حکومتی اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے موقف میں واضح فرق دیکھنے میں آیا۔