1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ایران کی جوہری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے‘

20 جولائی 2022

ایران نے کہا ہے کہ اُس کے ایک اہلکار کے ’ایٹم بم بنائے جانے سے متعلق بیان‘ کے بعد بھی ایران کی جوہری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس اہلکار نے کہا تھا کہ ایران ایٹم بم بنانے کے قابل ہے۔

https://p.dw.com/p/4EPbB
Ayatollah Ali Khamenei
تصویر: IRANIAN LEADER PRESS OFFICE/AA/picture alliance

تہران نے بدھ کو یقین دہانی کرائی کہ اس کی جوہری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور وہ اب بھی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں پر پابندی کے فتوے پر قائم ہے۔

گزشتہ 18 مہینوں میں یہ دوسرا موقع ہے کہ ایران نے کسی اہلکار کے تبصرے کے بعد جوہری ہتھیاروں کی مخالفت کا اعادہ کیا ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے کہا، ''وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے موضوع کے حوالے سے، ہمارے پاس ایران کے سپریم لیڈر کا فتویٰ یا مذہبی فتویٰ موجود ہے جو اس طرح کے ہتھیاروں کی تیاری پر پابندی لگاتا ہے۔‘‘

فتویٰ میں ایٹم بموں اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے دیگر ہتھیاروں کے استعمال کو ''حرام‘‘ یا اسلام کی طرف سے حرام قرار دیا گیا ہے، اور اسے اکثر ایرانی حکام تہران کے نیک ارادوں کی ضمانت کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔

کنانی نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ جوہری پالیسی کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران کے نقطہ نظر اور موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

نئی جوہری ڈیل مسترد کر سکتے ہیں، اسرائیلی وزیر اعظم

Atomanlage im Iran
ایران بارہا یقین دلانے کی کوشش کر چُکا ہے کہ اُس کا ایٹمی پروگرام پُر من مقاصد کے لیے ہےتصویر: Getty Images

'ایٹم بم سازی‘ کے بارے میں تبصرہ

ایران کے وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی کا یہ بیان دراصل ایران کی 'اسٹریٹجک کونسل آف فارن ریلیشنز‘  کے سربراہ کمال خرازی کی جانب سے اتوار کے روز الجزیرہ کو ایران کی جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی صلاحیت کے بارے میں دیے گئے تبصروں کے جواب میں سامنے آیا ہے۔

خرازی نے ایران کے اس موقف کو دہرانے سے پہلے، کہ وہ جوہری بم نہیں بنانا چاہتا، کہا کہ ''یہ کسی کے لیے راز نہیں ہے کہ ہمارے پاس ایٹم بم بنانے کی تکنیکی صلاحیت موجود ہے، لیکن ہم نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔‘‘

 بدھ کے روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے کنانی کا کہنا تھا،''ایران کی جوہری صلاحیت بہت مستحکم ہے، لیکن جیسا کہ اس نے کئی بار ذکر کیا ہے، ایران کی جوہری ٹیکنالوجی مکمل طور پر پُرامن مقاصد کے لیے ہے اور (اقوام متحدہ کی) بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی مسلسل نگرانی میں ہے۔ یہ ریمارکس ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان سامنے آئے ہیں جب کہ 2015 ء کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ویانا میں ہونے والی بات چیت مارچ سے تعطل کا شکار ہے۔

واضح نہیں کہ ایران ایٹمی معاہدے کی بحالی چاہتا ہے یا نہیں، امریکا

IAEA-Flagge
انٹر نیشنل اٹومک انرجی آئی اے ای اے کا ویانا میں قائم دفترتصویر: AFP/J. Klamar

قطر مذاکرات کا میزبان

خلیجی ریاست قطر نے گزشتہ ماہ امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کی میزبانی کی تھی تاکہ اس عمل کو دوبارہ بحال کیاجا سکے لیکن یہ بات چیت دو دن کے بعد بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہو گئی۔ ویانا مذاکرات، جو گزشتہ سال اپریل میں شروع ہوئے تھے، کا مقصد امریکہ کو جوہری معاہدے کی طرف لوٹنے پر آمادہ کرنا ہے۔ جس میں ایران پر سے پابندیاں ہٹانا بھی شامل ہے، اور تہران پر بھی اپنے وعدوں کی تکمیل  کے لیے زور دینا ہے۔ 2015 ء کے معاہدے نے ایران کو اس کے جوہری پروگرام پر پابندیوں کے بدلے میں پابندیوں میں ریلیف دی تھا تاکہ اس بات کی ضمانت دی جا سکے کہ تہران جوہری ہتھیار تیار نہیں کر سکتا تاہم اس نے ہمیشہ اس امر کی تردید کی ہے۔

لیکن اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں 2018 ء میں اس معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ دستبرداری اور ایران پر اقتصادی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کے بعد رد عمل کے طور پر ایران نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔

منگل کو امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے ''یہ عہد کیا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہیں کر پائے۔‘‘

Iran Urananreicherungsanlage in Natanz
ایران کی ناتانز میں قائم ایٹمی انرجی تنصیبتصویر: AEOI/ZUMA Wire/imago images

انہوں نے مزید کہا کہ ''ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے سفارت کاری سب سے موثر اور پائیدار ذریعہ۔‘‘

ایرانی جوہری سائنسدان تختہ دار پر چڑھا دیے گئے

ایران کا دیرینہ موقف

فروری 2021 ء میں، ایران نے جوہری ہتھیاروں کی مخالفت کا اعادہ کیا جب اس وقت کے ایرانی  انٹیلی جنس کے وزیر محمود علوی نے کہا تھا کہ اگرایران کو کبھی جوہری بم بنانے کی طرف ''دھکیلا‘‘ گیا تو اس میں اسلامی جمہوریہ کی غلطی نہیں ہوگی۔

ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر بحران کے وقت 2010ء میں پہلی بار متن کو عام کرنے سے پہلے برسوں تک فتویٰ کی موجودگی کا دعویٰ کیا تھا۔ اس وقت تہران پر عالمی برادری، خصوصاً مغرب اور اسرائیل نے خفیہ طور پر ایٹم بم حاصل کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا تھا۔

ک م / ب ج) اے ایف پی(