ایران کا متنازعہ جوہری پروگرام: دوسرے روز بھی مذاکرات جاری
7 دسمبر 2010پیر کے دن ایرانی حکام اور یورپی یونین سمیت سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک کے علاوہ جرمنی کے سفارت کاروں نے بھی ان مذاکرات میں شرکت کی۔ سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں جاری ان مذاکرات کے پہلے دن سفارت کاروں نے قریب دس گھنٹے تک ملاقات کا عمل جاری رکھا۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک ایرانی سفارت کار نے خبررساں ادارے AFP کو بتایا، ’ منگل کو سفارت کار صبح نو بجے مذاکرات شروع کریں گے۔ مقصد یہ ہو گا کہ ایک ایسے فریم ورک پر متفق ہوا جاسکے، جس کے تحت مستقبل میں مذاکرات کا دور جاری رہ سکے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس فریم ورک میں ایران کے ایٹمی توانائی کے حصول کے حق پر بات نہیں کی جائے گی اور اگر اس فریم ورک پر ایران متفق ہوتا ہے تو مذاکرات کے کئی دور منعقد کئے جائے۔ انہوں نے ان مذاکرات کو تعمیری قرار دیا۔
دوسری طرف مغربی سفارت کاروں نے بھی ان مذاکرات کو خوش کن قرار دیا ہے۔ اے ایف پی نے مغربی سفارت کاروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا،’ اگر مذاکرات اتنے طویل وقت تک جاری رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ گفتگو کی گنجائش ہے۔‘
ان مذاکرات میں ایران کی نمائندگی سعید جلیلی جبکہ مغرب کی نمائندگی یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کر رہی ہیں۔ مذاکرات کے دوسرے دن جوہری ہتھیاروں سے دستبرداری اور سول جوہری توانائی کے امور پر بات متوقع ہے۔
دوسری طرف ایرانی جوہری پروگرام کے سربراہ علی اکبر صالحی نے اپنے نشریاتی خطاب میں کہا ہے کہ مغربی طاقتوں سے یہ مذاکرات ایرن کے نہیں بلکہ اُنہی کے حق میں ہیں۔ تجریہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کا سلسلہ جاری رہنا ہی ان مذاکرات کی کامیابی ہو گا۔
ان مذاکرات سے ایک روز قبل ہی ایرانی حکام نے کہا تھا کہ وہ یورینیم کی افزدوگی میں خود مختار ہو گئے ہیں۔ علی اکبر صالحی نے کہا تھا کہ ایران نے ’یلو کیک‘ کی پہلی کھیپ تیار کر لی ہے۔ یلو کیک ایک ایسا سفوف ہے، جو یورینیم کی افزودگی کے لئے ایک اہم خام مال ہے۔
مغربی ممالک کا خیال ہے کہ ایران اپنے متنازعہ جوہری پروگرام سے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ تہران حکومت اس الزام کو مسلسل رد کرتی آئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لئے ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شادی خان سیف