1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران، سابق نائب وزیر دفاع کو جاسوسی کے الزام میں پھانسی

14 جنوری 2023

ایران میں سابق نائب وزیر دفاع کو جاسوسی کے الزام میں پھانسی دے دی گئی ہے۔ وہ ایران کے ساتھ ساتھ برطانوی شہری بھی تھے۔ مغربی ممالک نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو ’اس کا جواب‘ دیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/4MC3u
دوہری شہریت رکھنے والے علی رضا اکبری کو پھانسی دے دی گئی ہے
دوہری شہریت رکھنے والے علی رضا اکبری کو پھانسی دے دی گئی ہےتصویر: saednews

بین الاقوامی تنبہیات کے باوجود تہران حکومت کی جانب سے دوہری شہریت رکھنے والے علی رضا اکبری کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ دوسری جانب لندن حکومت کی جانب سے اس پھانسی پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ نے ایران سے متعدد مرتبہ اپیل کی تھی کہ علی رضا اکبری کو پھانسی نہ دی جائے لیکن ایران نے ایسی تمام اپیلوں کو مسترد کر دیا۔

اکسٹھ سالہ علی رضا اکبری ایران کے نائب وزیر دفاع بھی رہ چکے ہیں اور انہیں سن دو ہزار انیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ برطانوی وزیر اعظم رشی سنک کا اس تناظر میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہنا تھا، ''اپنے ہی لوگوں کے انسانی حقوق کا کوئی احترام نہ کرنے والی وحشی حکومت کی طرف سے کی گئی یہ ایک ظالمانہ اور بزدلانہ کارروائی ہے‘‘۔

 ایرانی عدلیہ کی میزان نیوز ایجنسی یہ نہیں بتایا کہ یہ پھانسی کب اور کس مقام پر دی گئی ہے۔

علی رضا اکبری پر کون سے الزامات تھے؟

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی فارسی نے جمعے کے روز اکبری کی ایک مبینہ آڈیو بھی نشر کی تھی، جس میں وہ کہتے ہیں، '' شدید قسم کے تشدد کے بعد مجھ سے ان جرائم کا اعتراف کروایا گیا ہے‘‘۔ 

آخری شہنشاہ ایران کے جلا وطن بیٹے کی بین الاقوامی برادری سے اپیل

میزان نیوز ایجنسی کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''علی رضا اکبری کو پھانسی دے دی گئی ہے، جنہیں زمین پر کرپشن اور برطانوی حکومت کی انٹیلی جنس سروس کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ انہوں نے ملک کی اندرونی و بیرونی سلامتی کے خلاف وسیع کارروائی کی تھی‘‘۔

ایرانی الزامات کے مطابق اکبری  نے جاسوسی کے عوض ایک مرتبہ اٹھارہ لاکھ پانچ ہزار یورو، ایک مرتبہ دو لاکھ پینسٹھ ہزار پاؤنڈ اور ایک مرتبہ پچاس ہزار ڈالر وصول کیے تھے۔

ایرانی میڈیا میں علی رضا اکبری کو ایک ''سُپر جاسوس‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جمعرات کو ایک ویڈیو نشر کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ رضا اکبری نے سن دو ہزار بیس میں ایران کے اعلیٰ جوہری سائنسدان محسن فخر زادہ کے قتل میں کردار ادا کیا تھا‘‘۔

محسن فخر زادہ تہران کے مضافات میں ایک حملے کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے تھے اور اس وقت ایران نے کہا تھا کہ اس کارروائی کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے۔

جاری کردہ ویڈیو میں اکبری نے اس قتل میں براہ راست ملوث ہونے کا اعتراف تو نہیں کیا لیکن انہوں نے بتایا کہ ایک برطانوی ایجنٹ نے فخر زادہ کے بارے میں معلومات مانگی تھیں۔

ایران میں موت کی سزائیں ’ریاستی منظوری سے ہلاکتیں،‘ اقوام متحدہ

ایران کا سرکاری میڈیا اکثر سیاسی طور پر گرفتار شدہ ملزمان کے اعترافی بیانات نشر کرتا رہتا ہے۔ ایسے بیانات کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ پتا چل پاتا ہے کہ ایسے بیانات کب ریکارڈ کیے گئے تھے۔

ہائی پروفائل پھانسی

علی شمخانی اب ایران کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری ہیں اور سزائے موت پانے والے علی رضا اکبری کا شمار ان کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ علی شمخانی انیس سو ستانوے سے لے کر  سن دو ہزار پانچ  تک ایرانی وزیر دفاع رہے اور اسی دور میں علی رضا اکبری ان کے نائب تھے۔ وہ انیس سو اسی کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے دوران پاسداران انقلاب کے رکن کے طور پر لڑے تھے۔

یہ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے کسی حاضر سروس یا سابق سینئر عہدیدار کو پھانسی دینے کا ایک نادر واقعہ ہے۔ اس سے قبل انیس سو چوراسی میں ایرانی بحریہ کے اعلیٰ کمانڈر بہرام افضلی کو پھانسی دی گئی۔ ان پر سوویت یونین کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام تھا۔

ا ا / ر ب (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)