1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہایران

ایران میں کرد اکثریتی علاقوں میں حکومت مخالف مظاہرے شدید

11 اکتوبر 2022

ایرانی خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آتی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف ایران پر بین الاقوامی دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ملک گیر مظاہرے ایران کے لیے ایک نیا چیلنج بن چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4I27C
Proteste Iran
تصویر: picture alliance/dpa

ایرانی حکام نے ملک کے مغرب میں واقع کرد اکثریتی علاقوں میں اپنے کریک ڈاؤن میں شدت پیدا کر دی ہے۔ وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایرانی سکیورٹی فورسز نے سنندج نامی علاقے میں مظاہرین کو منشتر کرنے کی خاطر فائرنگ بھی کی۔

مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کے زیر حراست ہلاک کے بعد ایران بھر میں گزشتہ ایک ماہ سے پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ایرانی قیادت ان مظاہروں کو ختم کرانے کی کوشش میں ہے تاہم سڑکوں پر نکلنے والے افراد کی تعداد روزبروز بڑھتی جا رہی ہے۔

ایرانی حکومت کے مطابق امینی کے ساتھ دوران حراست کوئی جسمانی بدسلوکی نہیں کی گئی لیکن ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ امینی کے جسم پر زخموں کے نشانات موجود تھے۔

امینی کی موت کے بعد منظر عام پر آنے والی ویڈیوز میں سیکورٹی فورسز کو خواتین مظاہرین کو مارتے اور دھکے مارتے دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ خواتین کی آزادی و خودمختاری کا معاملہ ہے

 یاد رہے کہ امینی کے موت کے خلاف ہونے والے ملک گیر مظاہروں میں ایرانی خواتین کو اپنے ہیڈ اسکارف اتار کر پھاڑتے ، جلاتے اور سر عام اپنے بال کاٹتے دیکھا جا سکتا ہے۔ایسی متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی پوسٹ کی جا چکی ہیں۔

حکام کی جانب سے انٹرنیٹ بندش کے باوجود ایرانی دارالحکومت تہران اور دیگر شہروں سے یہ ویڈیوز سامنے آئی ہیں۔

 گزشتہ ایک ماہ سے جاری حکومت مخالف ان مظاہروں میں عوامی سطح پر شدت دیکھنے میں آرہی ہے۔ ایران میں یونیورسٹی اور ہائی اسکول کے طلباء ان مظاہروں میں شرکت کر رہے ہیں۔

ایران میں جاری یہ مظاہرے 2009 کی احتجاجی گرین موومنٹ کے بعد ملک کی مذہبی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو رہے ہیں۔

ان مظاہروں کے خلاف بالخصوص ایرانی کرد علاقوں میں کریک ڈاؤن سخت ترین ہو گیا ہے۔

 ہینگاؤ آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس نامی کرد گروپ کی جانب سے ایک آن لائن پوسٹ کی گئی ویڈیو میں تہران سے تقریباً 400 کلومیٹر مغرب میں واقع سنندج، جو کہ ایک کرد اکثریتی علاقہ ہے، کا ایک منظر دیکھا جا سکتا ہے جس میں ایرانی فورسز کی جانب سے گولیاں چلائی جا رہی اور پولیس ان مظاہرین کے خلاف شاٹ گنز کا استعمال کر تے ہوئے ان کے گھروں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔

نیو یارک میں قائم سینٹر فار ہیومن رائٹس ان ایران نے ایک اور ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ پولیس اہلکار موٹر سائیکلوں پر سوار ہوکر سنندج علاقے کا گشت کر رہے ہیں۔ اس سینٹر سے جاری کردہ بیان کے مطابق ایرانی فورسز عوامی املاک کو بھی نقصان پہنچا رہیہیں۔

بائیس سالہ ایرانی خاتون مہسا امینی کا تعلق ایران کی کرد برادری سے ہی تھا جن کی موت نے ملک میں بالخصوص کرد لوگوں میں زیادہ اشتعال پیدا کیا ہے۔ امینی کی موت کے بعد ایران میں مظاہروں کا آغاز بھی اسی کرد علاقے سے ہوا تھا جو اب ملک بھر میں پھیل چکے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایرانی سیکورٹی فورسز پر آتشیں ہتھیاروں کے استعمال اور لوگوں کے گھروں پر اندھا دھند آنسو گیس فائر کرنے پر تنقید کی ہے۔

 انسانی حقوق کے علمبردار اس ادارے نے دنیا پر زور دیا کہ وہ مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کو ختم کرنے کے لیے ایران پر دباؤ ڈالے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایران اپنے جرائم پر پردہ پوشی کرنے کے لیے ملک میں انٹرنیٹ کی بندش کر رہا ہے۔

 

ایران حکومت کی جانب سے تاہم سنندج میں نئے سرے سے کریک ڈاؤن کے حوالے سے فوری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ ایران کی وزارت خارجہ نے کریک ڈاؤن کی وجہ سے ملک کی اخلاقی پولیس کے ارکان اور سیکورٹی اہلکاروں پر پابندی عائد کرنے پر برطانوی سفیر کو بھی طلب کر لیا ہے۔

اور ساتھ ہی لندن کے خلاف ممکنہ جوابی کارروائی کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے ایران پر عائد کی گئی پابندیوں کو 'منصوبہ بندی اور بے بنیاد' قرار دیا۔امریکی صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے بھی ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ایران میں کیا ہو رہا ہے۔

سلیوان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا، ’’یہ مظاہرین ایرانی شہری ہیں جن کی قیادت خواتین کر رہی ہیں۔ یہ عزت اور بنیادی حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ہم ان مظاہرین کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم ان لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے جو تشدد کا استعمال کرتے ہوئے ان کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

ر ب/ ع ب (اے پی)