1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں سعودی عرب پر حملے کی منصوبہ بندی کیسے ہوئی؟

26 نومبر 2019

دنیا کی سب سے بڑی آئل فیلڈ پر اٹھارہ ڈرونز اور تین میزائلوں کے حملے سے چار ماہ پہلے اعلیٰ ایرانی سکیورٹی عہدیدار تہران کے ایک قلعہ بند کمپاؤنڈ میں جمع ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اب تلواریں نکالنے کا وقت آ چکا‘ ہے۔

https://p.dw.com/p/3Tjzd
Saudi-Arabien Drohnen-Angriff auf Aramco-Ölaufbereitungsanlage
تصویر: Reuters

اس میٹنگ میں پاسداران انقلاب کے اعلیٰ کمانڈروں کے ساتھ ساتھ فوج کے ان شعبوں کے عہدیدار بھی شامل تھے، جو میزائل سازی اور خفیہ آپریشنز کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ رواں سال مئی میں ہونے والے اس خفیہ اجلاس کا مرکزی موضوع یہ تھا کہ امریکا کو کس طرح نشانہ بنایا جائے؟ کیوں کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی معیشت براہ راست متاثر ہو رہی تھی۔ 

میجر جنرل حسین سلامی اپنے اعلیٰ کمانڈروں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس میٹنگ سے آگاہ چار افراد نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ایک کمانڈر کا کہنا تھا، ''اب تلواریں نکالنے کا وقت آ چکا ہے تاکہ امریکا کو سبق سکھایا جا سکے۔‘‘ اس میٹنگ میں امریکی فوجی اڈے سمیت ہائی ویلیو ٹارگٹس کو نشانہ بنانے کی بات کی گئی۔ اس کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ اس طرح کی کوئی بھی کارروائی امریکا کے ساتھ براہ راست تصادم کا باعث بنے گی۔

اس کے بعد ایک کمانڈر نے یہ تجویز دی کہ امریکا کی بجائے اس کے اتحادی سعودی عرب کی آئل فیلڈ کو نشانہ بنایا جائے۔ میٹنگ میں موجود کم از کم چار عہدیداروں نے اس کی حمایت کی۔ اس میٹنگ کے حالات سے واقف تین اہلکاروں نے نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی ہے۔ ان تینوں اہلکاروں کا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر کہنا تھا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی نے اس آپریشن کی بذات خود منظوری دی تھی لیکن انہوں نے ساتھ ہی شرائط بھی رکھی تھیں۔ وہ یہ تھیں کہ اس آپریشن میں نہ تو کسی عام شہری اور نہ ہی کسی امریکی کو ہلاک کیا جائے گا۔

Saudi Arabien Luftbilder Drohnenangriffe auf Ölanlage
تصویر: U.S. government/AP

نیوز ایجنسی روئٹرز نے اپنی اس خصوصی رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں پاسداران انقلاب سے بھی رابطہ کیا لیکن انہوں نے کوئی بھی جواب دینے سے انکار کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں ایرانی مشن کے ترجمان علی رضا میر یوسفی نے اسے بالکل مسترد کر دیا ہے کہ مئی میں ایسی کوئی میٹنگز ہوئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی آئل فیلڈ پر ہونے والے حملے میں ایران کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس وقت ان حملوں کی ذمہ داری یمن کے حوثی باغیوں نے قبول کی تھی۔ لیکن امریکا اور سعودی عرب نے اسے مسترد کر دیا تھا کیوں کہ ان حملوں کا انداز انتہائی ماہرانہ تھا اور یہ صلاحیت حوثی باغیوں کے پاس موجود نہیں ہے۔

سعودی عرب ایک اسٹریٹیجک نشانہ

سعودی عرب میں دنیا کی اس سب سے بڑی آئل فیلڈ پر سترہ منٹ تک حملے جاری رہے۔ یہ حملے 18 ڈرونز اور تین میزائلوں سے کیے گئے۔ سکیورٹی پر اربوں ڈالر خرچ کرنے والا سعودی عرب یہ حملے روکنے میں ناکام رہا۔ ان حملوں سے سعودی عرب کی تیل کی پیداوار عارضی طور پر نصف ہو گئی اور دنیا میں خام تیل کی قیمتیں ایک دم بڑھ گئیں۔

'منصوبہ کئی ماہ میں تیار ہوا‘

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق ایران کے اس فیصلے سے متعلق معلومات رکھنے والے چار عہدیداروں کے مطابق سعودی آئل فیلڈز کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کئی ماہ تک جاری رہی۔ ان ایرانی عہدیداروں کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ''اس حوالے سے مجموعی طور پر پانچ میٹنگز ہوئیں اور پھر ستمبر کے آغاز میں اجازت دی گئی۔‘‘ یہ تمام میٹنگز خصوصی کمپاؤنڈز میں ہوئیں۔ ایک میٹنگ میں سپریم لیڈر خمینی بھی شریک ہوئے، جو ان کی رہائش گاہ کے کمپاؤنڈ میں ہوئی تھی۔

اس حوالے سے ہونے والی دیگر ملاقاتوں میں خامنائی کے اعلی عسکری مشیر یحیى رحیم صفوی اور پاسداران انقلاب کے بیرونی آپریشنز کے ہیڈ قاسم سلیمانی کے نائب شریک ہوتے رہے۔ اس حوالے سے یحیى رحیم صفوی سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔

ابتدائی طور پر سعودی عرب کی ایک ساحلی بندرگاہ، ایک ایئرپورٹ اور ایک امریکی بیس کو نشانہ بنانے پر بھی بحث ہوتی رہی۔ لیکن یہ  تجاویز آخرکار مسترد کر دی گئیں۔ ایرانی اہلکاروں کے مطابق آئل فیلڈ کو نشانہ بنانے کی منظوی اس وجہ سے بھی دی گئی کیوں کہ یہ خبر دنیا بھر میں جاتی اور اس کا مقصد دوسروں کو 'معاشی درد‘ محسوس کروانا تھا جبکہ اس طرح امریکا کو بھی ایک طاقتور پیغام پہنچ جاتا۔

ان چار ایرانی اہلکاروں کا کہنا تھا، ''آرامکو کو نشانہ بنانے پر تقریباً سبھی متفق ہو گئے اور اس کا مقصد ایران کی گہری رسائی اور فوجی قابلیت کو بھی منوانا تھا۔‘‘ 

Saudi-Arabien Drohnenangriffe
تصویر: Reuters

سابق امریکی ایئرفورس سے تعلق رکھنے والی امریکی سینیٹر مارتھا میکسلی نے ان حملوں کے بعد امریکی اور سعودی عہدیداروں کو بریفنگ دی تھی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور بہت اچھے انداز میں جانتے تھے کہ نشانہ کسے بنانا ہے اور زیادہ نقصان کیسے پہنچے گا۔ سینیٹر مارتھا میکسلی کا روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''ان حملوں سے پتا چلتا ہے کہ کسی کو ایسے آپریشن کرنے کی بہت ہی مہارت حاصل ہے ناکہ سیٹلائیٹ سے تصویریں دیکھ کر بس حملہ کر دیا جائے۔‘‘ اس خاتون کا کہنا تھا، ''یہ ڈرون اور میزائل ایرانی سرزمین سے آئے تھے۔‘‘

ڈرون کس راستے پہنچے؟

ان حملوں کی تفتیش سے آگاہ مشرق وسطیٰ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اس حملے کے لیے اہواز ایئربیس استعمال کی گئی۔ تین امریکی اہلکاروں اور دو دیگر ماہرین نے بھی روئٹرز کو یہی بتایا ہے کہ اس مقصد کے لیے اہواز ایئربیس استعمال ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ڈرون اور میزائل ایران سے براہ راست سعودی عرب نہیں پہنچے تھے بلکہ ان کے لیے مختلف روٹ استعمال کیے گئے۔ مغربی ممالک کے خفیہ ذرائع کے مطابق ان میں سے کچھ عراق اور کچھ براستہ کویت سعودی عرب پہنچے اور ایسی صلاحیت حوثیوں کے پاس نہیں ہے۔

روئٹرز کے مطابق اس کامیاب آپریشن کے کچھ ہی دیر بعد سپریم لیڈر کو اس سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ ایرانی اہلکاروں نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو یہ بھی بتایا ہے کہ حتمی اجلاس میں ایک اعلیٰ کمانڈر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس حملے سے آگے کی بھی تیاری کی جانی چاہیے۔ اس کمانڈر کا دیگر شرکاء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنا تھا، ''یقین کرو اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہو گا۔ اگلے کی تیاری شروع کر دینی چاہیے۔‘‘    

ا ا / ا ع (روئٹرز)