ایران جوہری پروگرام پر تعمیری بات چیت کے لئے تیار
29 اکتوبر 2009ایرانی خبر رساں ادارے IRNA کے مطابق جلیلی نے سولانہ کے ساتھ بات چیت میں واضح کیا کہ اُن کا ملک دیے گئے فریم ورک کے اندر مزید بات چیت کا خیرمقدم کرے گا اور اِس سلسلے میں ایک دوسرے کی ترجیحات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔
ایران کے نیم سرکاری خبر رساں ادارے مہر کے مطابق ایرانی سفارت کار علی اصغر سلطانیہ ذاتی طور پر اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ محمد البراداعی سے ملاقات کے دوران اپنی حکومت کا مؤقف یا پیش کردہ تجاویز کا جواب پیش کریں گے۔ اُن کی ملاقات کی تصدیق ایرانی جوہری ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے بھی کردی ہے۔ علی اصغر سلطانیہ ویانا کے لئے تہران سے روانہ ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب ابھی تک ایران کے قم جوہری مرکز کے معائنے پر گئے انسپیکٹروں کی رپورٹ یا اُس پر کسی قسم کا تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ انسپکٹر بھی جمعرات کو اپنا کام مکمل کرکے ویانا لوٹ رہے ہیں۔ اِن انسپکٹروں کی مکمل معائنہ رپورٹ امکانی طور پر وسط نومبر میں اٹامک انرجی ایجنسی کی سہ ماہی عالمی رپورٹ کا حصہ بن سکتی ہے۔
بعض سفارت کاروں کے خیال میں انسپکٹر اپنی رپورٹ میں کچھ تبدیلیاں تجویز کر سکتے ہیں جن کو تسلیم کرنے سے پہلے ایران غورو خوض کے تناظر میں مزید وقت طلب کرے گا اور یوں معاملہ آئندہ سال تک جاسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کے حوالے سے ایرانی ذرائع ابلاغ تو کہہ رہا ہے کہ ایران خام یورینئیم کی دوسرے ممالک میں افزودگی کی تجویز پر مثبت جواب دے گا۔ ایران کو پیش کردہ تجاویز کے حوالے سے یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے چیف خاویئر سولانہ پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ ایران کو پیش کردہ منصوبہ انتہائی مناسب ہے اور اُس میں بنیادی تبدیلیوں کی گنجائش نہیں۔
ایران کی پارلیمان کے اراکین کی جانب سے جوہری ادارے کی پیش کردہ تجاویز پر مسلسل شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اِن اراکین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ یورینئیم کی افزودگی دوسرے ملک سے کرانے پر ایرانی قومی سلامتی پر حرف آ سکتا ہے۔ متنازعہ ایرانی جوہری پروگرام پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کے اس دباؤ کے سامنے احمدی نژاد حکومت جھک سکتی ہے۔
اِس دوران روسی صدر دیمتری میدویدیف کےاعلیٰ مشیر برائے خارجہ امور Sergei Prikhodko کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں کے خدشات کے باوجود ایران پر مستقبل قریب میں پابندیوں کے امکانات بہت کم ہیں۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ روس کو ایرانی جوہری پروگرام پرعدم شفافیت پر تشویش ضرور ہے۔ اِس کے علاوہ روس کے نائب وزیر خارجہ Sergei Ryabkov نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ تہران کے جوہری پروگرام کے تنازعے پر عالمی طاقتوں کو زیادہ سے زیادہ صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔
اُدھر امریکی ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی نے ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر ایران کو مال سپلائی کرنے والی کمپنیوں پر امریکی پابندیوں کے مجوزہ بل کی منظوری دے دی ہے۔ اِس بل کی منظوری سے برطانیہ، فرانس، سوئٹزر لینڈ اور بھارت کی کمپنیوں کو امریکی پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ امریکی کانگریس میں سینیٹ میں جمعرات کو ایسے ہی ایک اور بل پر بحث ہونے کا امکان ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل