1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہایران

ایران جوہری بم بنا سکتا ہے، ایرانی اعلیٰ رہنما

18 جولائی 2022

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایک سینیئر مشیر کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس جوہری بم بنانے کی صلاحیت موجودہے، تاہم اس نے فی الحال اس پر عمل درآمد کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4EGSY
ایران کا بوشہر جوہری پاور پلانٹ
ایران کا بوشہر جوہری پاور پلانٹتصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے سینیئر مشیر کمال خرازی نے قطری ٹیلیویژن چینل الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ تہران کے پاس جوہری بم بنانے کی تکنیکی طور پر صلاحیت موجود ہے لیکن اس نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ آیا جوہری بم بنائے یا نہ بنائے۔

کمال خرازی کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب ایک روز قبل ہی امریکی صدر جو بائیڈن نے مشرق وسطیٰ کے اپنے چار روزہ دورے کے دوران، ایران کو "جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے کچھ بھی کرنے" کا عزم ظاہر کیا تھا۔

خرازی کا بیان اس لحاظ سے انتہائی اہم ہے کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں میں دلچسپی ہے حالانکہ وہ ایک عرصے سے اس بات سے انکار کرتا رہا ہے۔

کمال خرازی کا کہنا تھا، "چند دنوں میں ہم 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور ہم آسانی سے 90 فیصد افزودہ یورینیم تیار کر سکتے ہیں... ایران کے پاس نیوکلیئر بم بنانے کے تکنیکی ذرائع ہیں لیکن ایران نے اسے بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔"

کمال خرازی
کمال خرازیتصویر: MEHR

جوہری بم بنانے کے لیے 90 فیصد افزودہ یورینیم کافی

ایران پہلے ہی 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کرچکا ہے جو کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران کے سن 2015 کے جوہری معاہدے سے بہت زیادہ ہے۔ مذکورہ معاہدے کے تحت ایران کو صرف 3.67 فیصد یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت تھی۔ 90 فیصد افزودہ یورینیم سے جوہری بم بنائے جاسکتے ہیں۔

سن 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو جوہری معاہدے سے یک طرفہ طورپر الگ کرلیا تھا۔ حالانکہ اس معاہدے کے تحت ہی ایران نے اقتصادی پابندیوں میں نرمی کے بدلے میں یورینیم افزودگی کے اپنے منصوبے پر کام روک دیا تھا۔

ایران کے وزیر انٹیلیجنس نے گزشتہ برس کہا تھا کہ مغربی طاقتوں کی جانب سے پڑنے والے دباو کی وجہ سے تہران کو جوہری ہتھیار تیار کرنا پڑسکتا ہے۔ خامنہ ای نے سن2000 کی دہائی کے اوائل میں ایک فتوی کے ذریعہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری پر پابندی عائد کردی تھی۔

ایران طویل عرصے سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے انکار کرتا آ رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ صرف سویلین توانائی کے مقاصد کے لیے یورینیم کو ریفائن کر رہا ہے۔ تہران کا مزید کہنا ہے کہ اگر امریکہ پابندیاں ہٹاتا ہے اور معاہدے میں دوبارہ شامل ہوتا ہے تو وہ بھی بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزیوں سے پیچھے ہٹ جائے گا۔

Österreich | Atomgespräche mit dem Iran
ایران جوہری مذاکرات مارچ سے تعطل کا شکار ہےتصویر: EU Delegation in Vienna/Handout/AFP

ایران بیلسٹک میزائل پروگرام پر کوئی بات نہیں کرے گا

مغربی طاقتوں اور ایران کے درمیان سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے گزشتہ برس ویانا میں با ت چیت شروع ہوئی تھی تاہم یہ ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے۔ بات چیت مارچ سے تعطل کا شکار ہے۔ ایران کا کہناہے کہ امریکہ اس بات کی ضمانت دے کہ وہ آئندہ اس معاہدے سے الگ نہیں ہوگا تاہم صدر بائیڈن کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کا وعدہ کرنا سیاسی اسباب کی بنا پر ممکن نہیں ہے۔

کمال خرازی نے کہا کہ "چونکہ امریکہ جوہری معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی ضمانت نہیں دے رہا ہے اس طرح وہ  اس معاہدے کے امکانات کو ختم کررہا ہے۔"

دوسری طرف اسرائیل کا کہنا ہے کہ اگر ایران کے جوہری عزائم کو روکنے کے لیے جاری سفارت کاری ناکام ہوجاتی ہے ہے تو وہ ایران کے جوہری تنصیبات پر حملے کرسکتا ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای کے سینیئر مشیر اور سابق وزیر خارجہ کمال خرازی نے کہا کہ ایران اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام اورعلاقائی پالیسی پر کبھی بھی بات نہیں کرے گا جیسیا کہ مغرب اور مشرق وسطیٰ میں اس کے اتحادیوں کا مطالبہ ہے۔

انہوں نے کہا،"اگر پڑوسی ملکوں سے ہمارے سکیورٹی کو کسی طرح کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو ان ممالک اور اسرائیل کو براہ راست جواب دیا جائے گا۔ "

ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید