1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ایران اپنی فورسز پاکستانی علاقے میں بھیج سکتا ہے‘

مقبول ملک17 فروری 2014

ایرانی وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فاضلی نے تنبیہ کی ہے کہ ایک باغی گروپ کے قبضے میں موجود ایرانی سرحدی محافظین کی رہائی کے لیے تہران حکومت اپنی مسلح فورسز کو پاکستان اور افغانستان کے ریاستی علاقوں میں بھیج سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1BAPR
پاکستان کے ساتھ ایرانی سرحد اور وہاں فرائض انجام دینے والا ایک ایرانی بارڈر گارڈتصویر: IRNA

آج پیر کے روز خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی تہران سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق عبدالرضا رحمانی فاضلی کا یہ بیان ایران کے سرکاری ٹیلی وژن ادارے سے نشر ہوا ہے اور اس کا پس منظر ان ایرانی بارڈر گارڈز کا اغوا ہے جن کی تعداد پانچ ہے۔

ایران اور پاکستان کے درمیان سرحدی علاقے میں فعال عسکریت پسندوں کے ایک قدرے کم معروف گروپ جیش العدل نے قریب ایک ہفتہ قبل سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر ان پانچ ایرانی سرحدی محافظین کی تصویریں پوسٹ کر کے یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اس گروپ کے ارکان نے ان بارڈر گارڈز کو پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد کے قریب ایرانی علاقے سے اغواء کیا تھا۔

وزیر داخلہ رحمانی فاضلی کے ٹیلی وژن پر نشر کردہ بیان کے مطابق ایران نے پاکستانی حکومت سے کہہ دیا ہے کہ وہ اس معاملے کو ’پوری طاقت اور سنجیدگی‘ کے ساتھ حل کرے۔ دوسری صورت میں ایران کو اس دور دراز علاقے کو محفوظ بنانے کی اجازت دی جانا چاہیے، جو ’سرحد پار پاکستانی اور افغان سرزمین پر کافی اندر تک‘ پھیلا ہوا ہے۔ داخلہ امور کے ایرانی وزیر نے مزید کہا، ’’اگر ایسا نہ ہوا تو تہران حکومت اس بات کو اپنا حق سمجھتی ہے کہ وہ مداخلت کرے اور اپنی حفاظت کے لیے ایک نیا سکیورٹی دائرہء کار تشکیل دے۔‘‘

اسی دوران ایران کے پریس ٹی وی نے اپنی ویب سائٹ پر کہا ہے کہ وزیر داخلہ رحمانی فاضلی نے ایرانی بارڈ گارڈز کے پانچ ارکان کے حالیہ اغواء کے واقعے کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ اس سلسلے میں پاکستانی حکام کو ایران کو جواب دینا ہو گا۔

Iranische Polizei Drogenschmuggel an der Grenze zu Pakistan
پاک ایران سرحدی علاقے میں اسمگلروں کی روک تھام کا کام ایران کی طرف سے اینٹی نارکوٹکس فورس کے مسلح اہلکار کرتے ہیںتصویر: BEHROUZ MEHRI/AFP/Getty Images

ان ایرانی سرحدی محافظین کو چھ فروری کو ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے علاقے جاکی گُور سے اغواء کیا گیا تھا اور پھر مبینہ طور پر مسلح اغواء کار انہیں سرحد پار پاکستانی علاقے میں لے گئے تھے۔ اس واقعے کی ذمے داری جیش العدل نامی مسلح گروپ نے قبول کر لی تھی، جسے ایرانی حکام ایک ’دہشت گرد گروہ‘ قرار دیتے ہیں۔

وزیر داخلہ رحمانی فاضلی کے بقول اس سلسلے میں تہران متعینہ پاکستانی سفیر نور محمد جادمانی کو بھی تہران حکومت کے شدید اعتراضات سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور عنقریب ہی اسی حوالے سے ایران کا ایک سرکاری وفد پاکستان کا دورہ بھی کرے گا۔

گزشتہ برس اکتوبر میں بھی اسی عسکریت پسند گروپ کے ارکان نے پاکستانی سرحد کے قریب ایرانی علاقے میں ایک بڑا حملہ کر کے 14 سرحدی محافظین کو ہلاک اور چھ دیگر کو زخمی کر دیا تھا۔ اس سے پہلے فروری 2013ء میں پاکستان اور ایران نے ایک ایسے سکیورٹی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت دونوں ہمسایہ ملک دہشت گردی اور قومی سلامتی کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ منظم جرائم کی روک تھام کے لیے بھی ایک دوسرے سے تعاون کے پابند ہیں۔

ایرانی پریس ٹی وی کے مطابق تہران حکومت کئی بار پاکستان سے مطالبہ کر چکی ہے کہ وہ اس معاہدے کی شرائط پر عمل کرے۔