1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران اور طالبان کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوششوں کی مذمت

10 جنوری 2022

تہران حکومت اور افغان طالبان نے ایران اور افغانستان سمیت خطے سے متعلق امریکی سیاست پر کڑی تنقید کی ہے۔ دونوں ہمسایہ ممالک نے کہا ہے کہ امریکا کی ایک اہم سیاسی حکمت عملی تہران اور کابل کے مابین اختلافات کو ہوا دینا ہے۔

https://p.dw.com/p/45LEn
تصویر: Zoonar/picture alliance

ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے افغانستان کے اعلیٰ ترین سفارت کار امیر خان متقی کے ساتھ تہران میں ہونے والی ایک ملاقات میں اتوار نو جنوری کی شام کہا کہ واشنگٹن حکومت کی اس خطے سے متعلق سیاسی اسٹریٹیجی کا ایک اہم حصہ افغانستان اور ایران کے مابین محاذ آرائی کا ماحول پیدا کرنا ہے۔

Afghanistan Kabul | Mawlawi Amir Khan Muttaqi, Außenminister Übergangsregierung
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقیتصویر: Bilal Guler/Anadolu Agency/picture alliance

ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم کا حوالہ دیتے ہوئے نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے پیر دس جنوری کے روز تہران سے اپنے مراسلے میں لکھا کہ عبداللہیان نے اس ملاقات میں زور دے کر کہا کہ امریکا اس خطے سے متعلق اپنے سیاسی ارادوں میں کامیاب نہیں ہو گا۔

ایران کا امریکا کو مشورہ

ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے امریکا کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ اپنی ان غلطیوں سے سبق سیکھے جن کا ارتکاب اس نے گزشتہ بیس برسوں کے دوران اپنی افغانستان سے متعلق پالیسی میں کیا۔

ایران بھارتی امداد افغانستان تک پہنچانے کے لیے تیار

اس موقع پر افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ امریکا نے گزشتہ برس موسم گرما میں ہندوکش کی اس ریاست سے اپنے آخری فوجی دستے بھی نکال تو لیے تھے، تاہم واشنگٹن اب تک افغانستان پر سیاسی اور اقتصادی حوالوں سے اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔

Iran Außenminister Hossein Amir-Abdollahian Amirabdollahian
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیانتصویر: Fatemeh Bahrami/AA/picture alliance

متقی کے مطابق اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ آج افغانستان کی آبادی کے 80 فیصد حصے کو غربت کا سامنا ہے اور ان کے مطابق اس کے لیے بھی امریکا ہی قصور وار ہے۔

ایرانی ویب سائٹ پر شائع شدہ خبر بےچینی کا باعث

تہران میں اتوار کی شام جب ایرانی اور افغان وزرائے خارجہ کی ملاقات ہو رہی تھی، تقریباﹰ اسی وقت ایرانی نیوز ویب سائٹ عصر ایران پر شائع شدہ ایک خبر کی وجہ سے کافی بےچینی بھی پیدا ہو گئی۔

امریکی وزیر دفاع کا عرب خلیجی ریاستوں سے تجدید وفا

اس نیوز ویب سائٹ نے لکھا تھا کہ ایرانی حکومت تہران میں افغان سفارت خانے کی عمارت طالبان کے حوالے کرنے پر تیار ہے۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے صدر اشرف غنی کے دور میں تہران میں تعینات کیے گئے افغان سفیر مبینہ طور پر ایران سے فرار ہو کر بیرون ملک جا چکے ہیں۔

دونوں وزراء کی طرف سے تردید

ایرانی وزیر خارجہ عبداللہیان اور ان کے پہلی مرتبہ تہران کے دورے پر آئے ہوئے افغان ہم منصب متقی نے عصر ایران کی اس خبر کی فوری طور پر تردید کر دی۔ تاہم کئی مبصرین کا خیال ہے کہ تہران میں افغان سفارت خانے کا طالبان کے حوالے کیا جانا کوئی بہت غیر معمولی بات اس لیے نہیں ہو گی کہ دیگر ہمسایہ ممالک میں بھی افغان سفارت خانے اب کابل میں طالبان کی حکومت کے حوالے کیے جا چکے ہیں۔

طالبان کے بغیر افغانستان کانفرنس، میزبان ایران

کئی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ایرانی حکومت کی اس بارے میں سوچ ابھی تک منقسم ہے کہ اسے کابل میں برسراقتدار طالبان کے ساتھ آئندہ کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ چند ایرانی سیاست دانوں کے مطابق افغان طالبان اب پہلے والے طالبان نہیں رہے۔ اس کے برعکس کچھ ایرانی سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ کئی حالیہ واقعات اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ افغان طالبان اب بدل چکے ہیں۔

م م / ع ب (ڈی پی اے،اے ایف پی)