ایران انسداد دہشت گردی کی نئی امریکی پالیسی کا ہدف
5 اکتوبر 2018انسداد دہشت گردی کی نئی امریکی پالیسی میں ایران کو سب سے زیادہ ہدف بنایا گیا ہے۔ سن 2011 میں پیش کی جانے والی ایسی ہی پالیسی میں ایران کا ذکر صرف ایک مرتبہ کیا گیا تھا اور سات سال بعد امریکی پالیسی ایرانی ریاست کے گرد تشکیل دی گئی ہے۔ اُس وقت کی اوباما انتظامیہ کا خصوصی فوکس القاعدہ دہشت گرد نیٹ ورک اور اس کے بانی رہنما اسامہ بن لادن پر تھا۔
امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے انسدادِ دہشت گردی کی نئی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے ایران پر کڑی تنقید کی ہے۔ بولٹن نے اس پالیسی کو بیان کرتے ہوئے ایران کو عالمی دہشت گردی کا ’سینٹرل بینک‘ قرار دیا۔ بولٹن نے واضح کیا کہ دہشت گردوں کے خلاف امریکا روایتی فوجی ایکشن پر انحصار کرنے کے ساتھ ساتھ غیر فوجی ذرائع کا بھی استعمال کرے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے اقدامات ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے علاوہ اُن عسکریت پسند گروپوں کے خلاف بھی اٹھائے جا سکتے ہیں جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے۔ بولٹن کے مطابق امریکا کو دہشت گرد آئیڈیالوجی کا سامنا ہے اور اس کے تدارک کے لیے مناسب فیصلے کیے جاتے رہیں گے۔
اس پالیسی کے اعلان کے دوران بولٹن نے واضح کیا کہ ایران ایک طرف لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کی ہر طرح سے مدد جاری رکھے ہوئے ہے تو دوسری جانب وہ فلسطینی گروپ حماس کے علاوہ اسلامی جہاد کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ بولٹن کے مطابق ان گروپوں سے امریکی مفادات کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے پالیسی بیان کرتے ہوئے کہا کہ بنیاد پرست مسلمان دہشت گروپوں کی مختلف ملکوں میں سرحدوں کے آرپار کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنا بھی نئی حکمت عملی میں خاص طور پر شامل کیا گیا ہے کیونکہ یہ امریکا کی ملکی سلامتی کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے بھی خطرے کا باعث ہیں۔
بولٹن کے مطابق امریکا کو سن 1979 کے بعد سے ایران سے مسلسل دھمکیوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایرانی خام تیل کی فروخت کو روکنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوششیں کرے گی تا کہ یہ فروخت صفر کے مقام پر آ جائے۔ ایران پر خام تیل کی فروخت کی پابندی رواں برس چار نومبر سے عائد کی جا رہی ہے۔ امریکا یہ بھی چاہتا ہے پابندیوں کے دباؤ کے تحت ایران اپنے بیلسٹک میزائل سازی کے حوالے سے مذاکراتی میز پر بیٹھ جائے۔
ع ح ا / ب ا (روئٹرز)