1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستاسرائیل

ایران اسرائیل تنازعہ: کشیدگی کون کم کرا سکتا ہے؟

18 اپریل 2024

اسرائیل اور ایران کے مابین جنگ کے خطرے کے پیش نظر عالمی سطح پر سفارتی سرگرمیاں بہت بڑھ چکی ہیں، لیکن حقیقی سوال یہ ہے کہ ایران پر کون سا ملک کس حد تک اثر انداز ہو سکتا ہے؟

https://p.dw.com/p/4ewIX
Israel I Iranische ballistische Raketen, die Israel am Wochenende auf dem Militärstützpunkt Julis abgefangen hat
تصویر: Tsafrir Abayov/AP/picture alliance

ایران کی جانب سے بڑے پیمانے پر ڈرون حملے کے بعد اسرائیل جوابی کارروائی کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے منگل کو کہا تھا، ''ان کو بھی اتنا ہی پریشان ہونا چاہیے، جتنا کہ انہوں نے ہمیں بے چین کیا تھا۔‘‘ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ ایران کو جواب جلدی کے بجائے سوچ سمجھ کر دیا جائے گا۔

امریکہ اور یورپی یونین اسرائیل پر اعتدال پسندانہ اثر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ایران پر کس کا اثر و رسوخ ہے اور کیا وہ اسرائیل کی طرف سے ممکنہ جوابی حملے کے بعد مزید کشیدگی کا مقابلہ کر سکتا ہے؟

قطر

ایرانی صدارتی دفتر کے مطابق صدر ابراہیم رئیسی نے منگل (16.04.24) کو قطر کے امیر تمیم بن حمد الثانی کو ٹیلی فون کیا۔ ایران اور قطر کے درمیان قریبی سفارتی تعلقات ہیں۔ خاص طور پر قطر کے بحران کے دوران یہ دونوں ملک مزید قریب آ گئے تھے۔ سن 2017 سے سن2021 کے درمیان سعودی عرب کے اکسانے پر قطر کو عرب دنیا میں تنہا کر دیا گیا تھا۔

ایران اور قطر کے درمیان قریبی سفارتی تعلقات ہیں
ایران اور قطر کے درمیان قریبی سفارتی تعلقات ہیںتصویر: Qatari Emirate Council/Handout/Anadolu/picture alliance

ریاض نے دیگر چیزوں کے علاوہ قطر پر خطے میں دہشت گرد گروپوں کی حمایت کا الزام عائد کیا تھا۔ ایران اور قطر دونوں ہی عسکریت پسند تنظیم حماس کی حمایت کرتے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کی منظوری کے ساتھ قطر غزہ پٹی میں انسانی بنیادوں پر امداد کے اہم عطیہ دہندگان میں سے ایک ہے اور اسے اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک اہم ثالث سمجھا جاتا ہے۔ قطر کی ثالثی سے اسرائیل اور حماس نے نومبر 2023 میں مختصر جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا تھا۔

عمان

سلطنت عمان خاموشی سے کام کرتی ہے اور یہ ملک ایک طویل عرصے سے ایران اور امریکہ کے درمیان ثالث کے طور پر اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ عمان کے بغیر گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات میں طے پانے والے معاہدے ناقابل تصور ہوتے۔ اس کے ساتھ ساتھ جزیرہ نما عرب کا یہ ملک ایران میں امریکی اور یورپی قیدیوں کی رہائی کے لیے مہم بھی چلا رہا ہے۔

نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت گزشتہ ہفتے کے آخر سے سلطنت عمان اور سوئٹزرلینڈ کی مدد سے ایرانی حکام سے بات چیت کی کوشش کر رہی ہے۔ امریکہ اور ایران کے درمیان براہ راست سفارتی تعلقات موجود نہیں ہیں اور رابطہ کسی تیسرے ملک کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔

سعودی عرب

سعودی عرب تاریخی طور پر ایران کا علاقائی مخالف اور امریکہ کا قریبی اتحادی ہے۔ تاہم یہ اس بات کو یقینی بنانے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے کہ صورت حال مزید خراب نہ ہو کیونکہ اس ملک کا انحصار تیل کی برآمدات پر ہے اور کسی بھی جنگ کے نتیجے میں یہ خطرے میں پڑ جائیں گی۔

سعودی عرب اور ایران کے مابین سخت سفارتی کشیدگی تھی لیکن سن 2023 میں چین کی کوششوں سے ان دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر آ گئے تھے۔ دونوں ممالک نے دوبارہ سفیروں کے تبادلے کے ساتھ ساتھ تجارت میں اضافہ کیا ہے اور دفاعی تعاون پر بھی بات چیت ہو چکی ہے۔

سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان بن عبداللہ نے چین کو بطور ثالث تجویز کیا ہے
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان بن عبداللہ نے چین کو بطور ثالث تجویز کیا ہےتصویر: Andy Wong/AP/picture alliance

تاہم مشکل ماضی کی وجہ سے سعودی عرب ایران پر براہ راست اثر و رسوخ نہیں ڈال سکتا اور یہی وجہ ہے کہ اس نے بالواسطہ حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان بن عبداللہ نے چین کو بطور ثالث تجویز کیا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ کا اپنے چینی ہم منصب سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''سعودی عرب کو بہت زیادہ توقعات اور امیدیں ہیں کہ چین مشرق وسطیٰ کی خطرناک صورتحال کو معمول پر لانے میں فعال اور اہم کردار ادا کرے گا۔‘‘

چین

بیجنگ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں مزید کشیدگی کو روکنا چاہتی ہے۔ چین ایران کا سب سے اہم تجارتی شراکت دار ہے اور دونوں ممالک فوجی تعاون بھی کرتے ہیں۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے منگل (16.04.24) کو اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں زور دیا کہ ایران تحمل کا مظاہرہ کرے۔

وانگ یی نے یہ بھی یقین دلایا کہ چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کے طور پر دمشق میں ایرانی سفارت خانے کی عمارت پر اسرائیلی میزائل حملے کی مذمت کی ہے۔ تاہم اس تناظر میں کوئی متفقہ قرارداد منظور نہیں ہو سکی۔

سنگاپور کی نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات جیمز ڈورسی کہتے ہیں، ''چین نہیں چاہتا کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال قابو سے باہر ہو جائے۔ چین کو پہلے ہی نقل و حمل کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور توانائی کی فراہمی کے خطرات میں ڈرامائی اضافے کا سامنا ہے۔‘‘ تاہم ڈورسی کا کہنا ہے کہ چین کو تل ابیب کے ساتھ رابطوں میں کمی کا سامنا ہے، ''چین صرف بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر اسرائیل سے اپیل کر سکتا ہے کہ وہ کشیدگی سے بچے اور تحمل سے جواب دے۔‘‘

روس

روایتی طور پر روس کے اس تنازعے میں شامل تمام فریقوں اسرائیل، فلسطینی گروپوں، سعودی عرب اور ایران کے ساتھ اچھے سیاسی تعلقات رہے ہیں۔ روس کو ایران کا قریبی اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ امریکی پابندیوں کے باوجود تہران اور ماسکو نے اپنے تعاون کو مزید وسعت دی ہے۔ ایران روسی فوج کو ڈرون فراہم کر رہا ہے، جو یوکرین کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ ماسکو نے اسرائیل اور ایران دونوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سلامتی کونسل میں روسی سیکرٹری نکولائی پیٹروشیف نے اس بات پر زور دیا کہ روس کے خیال میں اختلافات کو ''خاص طور پر سیاسی اور سفارتی ذرائع سے‘‘ حل کیا جانا چاہیے۔

ترکی

ترکی نے مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں شروع سے ہی فلسطینیوں کے موقف کی حمایت کی ہے۔ گزشتہ ہفتے انقرہ نے اسرائیل کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا بھی اعلان کیا تھا۔ ترک حکومت کو ایران اور اسرائیل کے درمیان مزید کشیدگی اور تشدد کا خدشہ بھی ہے۔ ترکی نے دونوں فریقوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ترک اکنامک پالیسی ریسرچ فاؤنڈیشن (TEPAV) کے سفارت کار اور خارجہ پالیسی کے ڈائریکٹر گلرو گیزر کے مطابق، ''خطے کے دیگر ممالک جیسے کہ قطر، عمان اور سعودی عرب کے برعکس، ترکی کی ایران کے ساتھ ایک طویل زمینی سرحد ہے۔ پڑوسی ملک ایران میں ممکنہ عدم استحکام ترکی کے لیے سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ خاص طور پر مہاجرین کے حوالے سے۔ بدقسمتی سے ترکی کو شام اور عراق کی جنگوں میں بھی اس کا تجربہ کرنا پڑا۔‘‘

یہ آرٹیکل پہلی مرتبہ جرمن زبان میں شائع ہوا۔

ا ا / ا ب ا، م م (ڈی ڈبلیو)