1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایبولا کے سائے میں مناسک حج کی ادائیگی شروع

عاطف بلوچ3 اکتوبر 2014

دنیا بھر کے مسلمان اسلام کےایک بنیادی رکن حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب پہنچ چکے ہیں، جہاں حکام نے ایبولا وائرس کے ممکنہ خطرے کے تحت سکیورٹی ہائی الرٹ کر رکھی ہے۔

https://p.dw.com/p/1DPEN
تصویر: Reuters/Muhammad Hamed

اس برس حج کے موقع پر مغربی افریقہ سے پھوٹنے والی ایبولا وائرس کی وباء کے خوف کے پیش نظر سعودی حکام نے خصوصی انتظامات کیے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے مکہ سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ بالخصوص مغربی افریقی ممالک سے حج کی ادائیگی کے لیے آنے والے افراد کے خصوصی نگرانی کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں موبائل لیباٹریاں بھی حرکت میں ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ مہلک وائرس ایبولا میں مبتلا ہونے کے شک میں فوری طور پر ٹیسٹ کرنے کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔

سعودی حکومت نے بتایا ہے کہ اس برس تین ملین مسلمان حج ادا کریں گے، جن میں 1.4 ملین افراد بیرون ممالک سے وہاں پہنچے ہوئے ہیں۔ جمعرات کے دن سعودی وزارت صحت نے بتایا ہے کہ وہ ایبولا وائراس کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکنے کے لیے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور امریکی طبی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق ایبولا وائراس کے نتیجے میں کم ازکم تین ہزار 300 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ یہ وباء تیزی سے پھیل رہی ہے۔

Beginn Pilgerfahrt Hadsch in Mekka 30.09.2014
سعودی حکومت نے بتایا ہے کہ اس برس تین ملین مسلمان حج ادا کریں گےتصویر: AFP/Getty Images/M. Al Shaikh

مکہ میں مسجد الحرام کے باہر موجود نائجیریا کے ایک ڈاکٹر عبدالصمد نے روئٹرز کو بتایا، ’’ہم حج کی ادائیگی کے لیے لاگوس سے آئے ہیں۔ وہاں بھی ہمارا مکمل ٹیسٹ ہوا تھا اور یہاں سعودی عرب پہنچنے پر بھی ہمارا طبی معائنہ کیا گیا۔ ابھی تک ہمیں یقین ہے کہ ایبولا کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘ خانہ کعبہ میں موجود احرام زیب تن کیے ہوئے لوگوں میں بھی ایسے افراد انتہائی کم ہیں، جنہوں نے اییولا کے وائرس سے بچنے کے لیے خصوصی ماسک اور دستانے پہن رکھے ہیں۔

مصر سے تعلق رکھنے والے اکہتر سالہ بزرگ اسماعیل صالح کا کہنا ہے کہ اس ’مقدس مقام‘ پر مرنا میرا خواب ہے، ’’میں نے یہاں حاضری دینے کے لیے تمام عمر انتظار کیا ہے اور میں ایمانداری سے کہتا ہوں کہ میں یہاں ہی مرنا چاہتا ہوں۔ اس لیے ایبولا وائرس میں مبتلا ہونا میرے لیے خوف کی بات نہیں ہے کیونکہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں پہلے سے ہی وہیل چیئر پر موجود ہوں۔‘‘

دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو مسلمانوں کے سے سب سے بڑے اجتماع کے دوران کسی بیماری میں مبتلا ہونے سے خوفزدہ ہیں۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والی چار بچوں کی ماں روبینہ فہیم کا کہنا ہے، ’’ میں میرس یا ایبولا کے وائرس میں مبتلا ہونا برداشت نہیں کرسکتی۔ مجھے اپنے کنبے کی دیکھ بھال کرنا ہے۔‘‘ سعودی حکام کے مطابق حج کے دوران کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بائیس ہزار طبی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ گزشتہ برس اس مقصد کے لیے بارہ ہزار طبی اہلکار مامور تھے۔

یہ امر اہم ہے کہ سعودی عرب نے پہلے ہی ایسے ممالک کو اس مرتبہ حج کرنے کے لیے منع کر دیا تھا جن کا تعلق سیرالیون، گنی یا لائبیریا سے تھا۔ ایبولا وائرس انہی تین مغربی افریقہ ممالک س پھیلنا شروع ہوا تھا۔ سعودی حکام کے مطابق احتیاطی طور پر ان ممالک کے افراد کو پہلے ہی انکار کر دیا گیا تھا کہ وہ ویزے کے لیے درخواست جمع نہ کرائیں۔ تاہم اقوام متحدہ کے مطابق ان ممالک سے سات ہزار مسلمانوں نے حج ادا کرنے کی غرض سے ویزا فارم جمع کرائے تھے۔