1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتشمالی امریکہ

'ایل اے سی کی خلاف ورزی ہوئی تو روس کام نہیں آئے گا'

صلاح الدین زین نئی دہلی
1 اپریل 2022

اس سے قبل کہ روسی وزیر خارجہ دہلی پہنچتے، امریکہ نے چین اور روس کے تعلقات کے بارے میں بھارت کو متنبہ کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ جو بھی روس پر عائد پابندیوں کی خلاف ورزی کرے گا اسے اس کے 'نتائج' بھگتنے پڑیں گے۔

https://p.dw.com/p/49KCW
USA | Indopazifik-Gipfel in Washington
تصویر: Sarahbeth Maney/Pool/Getty Images

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے نئی دہلی پہنچنے سے چند گھنٹے پہلے ہی امریکہ کے نائب قومی سلامتی کے مشیر دلیپ سنگھ نے کہا کہ ان ممالک کو "نتائج" بھگتنے پڑیں گے جو روس پر عائد "پابندیوں کو فعال طریقے سے  بے اثر کرنے کی سرگرمیوں میں ملوث ہوں گے۔"

روسی وزیر خارجہ کے کی آمد سے قبل ہی امریکہ کے نائب قومی سلامتی کے مشیر دلیپ سنگھ نئی دہلی پہنچے تھے اور مودی حکومت کے سینیئر حکام سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے چین اور روس کے تعلقات کے بارے میں بھارت کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی کے لیے اس کے مضمرات ہوں گے۔

روس بھارت کی مدد کو نہیں آئے گا

ان کا کہنا تھا، "کسی کو بھی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ روس اور چین کے تعلقات میں، ماسکو ایک جونیئر پارٹنر بننے جا رہا ہے۔ اور چین روس کو جتنا زیادہ اپنے مفاد کے لیے ہموار کرتا ہے، بھارت کے لیے روس اتنا ہی کم سازگار ثابت ہو گا۔"

انہوں نے مزید کہا، "مجھے نہیں لگتا کہ کوئی اس بات پر بھی یقین کرے گا کہ اگر چین نے ایک بار پھر سے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کی خلاف ورزی کی، تو بھارت کے دفاع میں روس دوڑتے ہوئے آئے گا۔"

امریکہ کے نائب قومی سلامتی کے مشیر دلیپ سنگھ نے کہا، "اور یہی وہ تناظر ہے جس میں ہم یہ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کی جمہوریتیں اور خاص طور پر، کواڈ  ایک ساتھ جمع ہوں اور اپنے مشترکہ مفادات پر بات کرنے کے ساتھ ہی، یوکرین میں ہونے والی پیش رفت اور اس کے اثرات کے بارے میں مشترکہ طور پر خدشات کا اظہار کریں۔"

دلیپ سنگھ ایک بھارتی نژاد امریکی اہلکار ہیں، جنہوں نے صدر ولادیمیر پوٹن اور لاوروف سمیت سرکردہ روسی شخصیات کے خلاف امریکی پابندیوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ روس نے بھی رد عمل کے طور پر امریکی عہدیدار دلیپ سنگھ پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

Russland | Innerer Kreis von Putin - Sergey Lavrov
تصویر: Russian Foreign Ministry Press Service/AP/picture alliance

روسی اور برطانوی وزیر خارجہ کا دورہ دہلی

ادھر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف جمعرات کی شام کو بیجنگ سے دہلی پہنچے اور جمعے کے روز وزیر خارجہ ایس جے شنکر سمیت کئی سینئر حکام سے بات چیت کی۔ برطانوی وزیر خارجہ لز ٹرس بھی جمعرات کی علی الصبح دہلی پہنچی تھیں اور گزشتہ روز انہوں نے بھی اپنے بھارتی ہم منصب سے بات چیت کی تھی۔

امریکی اہلکار کا کہنا تھا کہ بھارت فی الوقت روسی توانائی کی درآمد سے کسی بھی پابندی کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا: "ہم کسی کو بھی اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہیں گے کہ پابندیوں کے نظام میں ہمارے اسٹریٹجک مقاصد کے خلاف مختلف مقاصد کے لیے توانائی کی سپلائی میں تیزی سے اضافہ کر دے۔"

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا امریکہ روسی ساخت کے ایس 400 میزائل لینے کے لیے بھارت کے خلاف پابندی عائد کر سکتا ہے، تو انہوں نے بڑس سفارتی انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا، "یہ نجی بات چیت کا موضوع ہے، میں اسے شیئر نہیں کروں گا۔۔۔۔۔ مخصوص لین دین اور بعض مفروضوں سے متعلق بات چيت کو میں پرائیویٹ زمرے میں رکھتا ہوں۔"

روس بھارت کے تعلقات اور امریکہ کی پریشانی

 بھارت کو ہتھیاروں اور دیگر اسٹریٹیجک اشیاء کا روس ایک بڑا سپلائر ہے۔ حالانکہ گزشتہ چند برسوں کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ اوسطاً نو ارب ڈالر کی ہی تجارت ہوئی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت اور چین کی باہمی تجارت سالانہ 100 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔

یوکرین پر حملے کے سبب امریکہ نے روس پر پابندیاں عائد کی ہیں، تاہم  فی الحال ایسے کوئی اشارے نہیں ہیں کہ بھارت روس کے ساتھ اپنے تجارتی اور اسٹریٹیجک تعلقات میں کسی طرح کی کوئی کمی کرے گا۔ اس نے حال ہی میں ماسکو کے ساتھ کئی بڑے معاہدے بھی کیے ہیں۔

روس کے حوالے سے بھارت کے اس موقف سے امریکہ بہت خوش نہیں ہے اور اسی لیے وہ اپنی تشویش کا اظہار بھی کرتا رہا ہے۔

گزشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ کواڈ ملکوں میں بھارت ہی ہے جو روس کے خلاف متزلزل نظر آتا ہے جبکہ باقی ارکان نے ثابت قدمی سے کام لیا ہے۔ دوسری طرف بھارت کا کہنا ہے کہ اس کے روس اور امریکہ دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید