1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آرمی چیف کے اہل خانہ کا ٹیکس ریکارڈ لیک ہونے پر حکومتی نوٹس

21 نومبر 2022

ایک تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہےکہ آرمی چیف کی ملازمت کےدوران ان کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کے اثاثوں میں بڑا اضافہ ہوا۔ حکومتی مؤقف ہے کہ جنرل باجوہ کے اہل خانہ کا ٹیکس ڈیٹا چوری کر کے قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔

https://p.dw.com/p/4JpfM
MSC Qamar Javed Bajwa  Armeechef von Pakistan
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe

پاکستان میں حکومت نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اہل خانہ کا ٹیکس ریکارڈ لیک ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے چوبیس گھنٹوں میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ وفاقی وزارت خزانہ کی جانب سے پیر کے روز جاری کی گئی ایک پریس ریلیز کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ آرمی چیف کے ٹیکس ریکارڈ کا افشاں ہونا ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق محمود پاشا کو فوری طور پر فیڈرل بیور آف ریونیوز (ایف بی آر) کا ڈیٹا چوری کرنے میں ملوث افراد کی نشاندہی کر کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

Pakistan | Finanzminister Ishaq Dar
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کے اہل خانہ کا ٹیکس ریکارڈ لیک کر کے قانون کی خلاف ورزی کی گئیتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

وفاقی حکومت کا ردعمل تحقیقاتی صحافت سے متعلق خبروں کی ایک ویب سائٹ پر جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف کے عہدے پر رہنے کے دوران ان کے اہل خانہ کے اثاثوں میں بے تحاشہ اضافے کی خبر شائع ہونے کے بعد سامنے آیا۔

  فیکٹس فوکس نامی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں صحافی احمد نورانی نے  یہ دعویٰ کیا تھا کہ گزشتہ چھ برسوں میں جنرل باجوہ کے گھر والوں اور رشتہ داروں کے اثاثوں میں 12 ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا۔ یہ تحقیقاتی رپورٹ ان افراد کے مبینہ ٹیکس گوشواروں اور ویلتھ اسٹیٹمنٹس سے حاصل کیے گئے  ثبوتوں پر مبنی ہے ۔ اس رپورٹ میں جنرل قمر جاوید  باجوہ کی اپنی اہلیہ، بڑے بیٹے، بہو اور سمدھی سمیت دیگر قریبی رشتہ داروں کی جائیدادوں اور اثاثوں کی تفصیلات دی گئی ہیں۔

 صحافی احمد نورانی کا دعویٰ ہے کہ اس خبر کی اشاعت کے بعد حکومت نے فیکٹ فوکس ویب سائٹ کو بند کر دیا ہے۔ اس بندش کے خلاف احمد نورانی نے ٹوئٹر پر حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے خلاف نعرے لکھے اور اسے ایک صحافی دشمن، میڈیا دشمن اور سچ دشمن جماعت قرار دیا۔

فوج پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش

ریٹائرڈ فوجی افسران کا کہنا ہے کہ یہ الزامات فوج پر کیچڑ اچھالنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور ان الزامات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس حوالے سے معروف دفاعی مبصر میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں اس رپورٹ میں سارے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔ فوج کے افسران اپنے اور جو بچے ان پر انحصار کرتے ہیں، ان کے حوالے سے دولت اور اثاثوں کی سالانہ تفصیلات آرمی کو بھی دیتے ہیں اور ایف بی آر کو بھی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ جن بچوں کا انحصار اپنے فوجی والدین پر نہیں ہوتا ان کے کوائف بھی مہیا کیے جاتے ہیں۔‘‘

اعجاز اعوان کے مطابق عموماﹰ ایک جنرل کو ایک کمرشل اور دو رہائشی پلاٹ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں الاٹ کیے جاتے ہیں جبکہ 50 ایکڑ کے قریب زمین بھی ملتی ہے،''لیکن بغیر کسی ثبوت کے ان اثاثوں کو اربوں میں ظاہر کردینا بد دیانتی ہے۔‘‘

Pakistan Premierminister Imran Khan
جنرل باجوہ اس ماہ آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

الزامات انتہائی سنگین ہیں

 سپریم کورٹ کے ایک سابق جج جسٹس وجیہ الدین احمد کا کہنا تھا کہ یہ الزامات انتہائی سنگین ہیں اور جنرل باجوہ اگر ان کو غلط سمجھتے یہں تو انہیں فوری طور پر قانونی کارروائی کرنا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' یہ پہلا موقع نہیں ہے اس سے پہلے جنرل کیانی کے بھائی کے حوالے سے بھی کرپشن کی باتیں ہوئیں اور بعد میں جنرل عاصم سلیم باجوہ کے حوالے سے بھی خبریں آئیں کہ فوج میں ملازمت کے دوران ان کے اثاثے بڑھ گئے ہیں اور اب جنرل باجوہ کے حوالے سے یہ بات آگئی ہے کہ ان کے اور گھر والوں کے اثاثے بڑھ رہے ہیں۔ یہ بہت ہی سنگین نوعیت کے الزامات ہیں۔ اگر یہ صحافی امریکا یا کسی اور ملک میں بھی ہے تو وہاں پر بھی اس کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔‘‘

جسٹس وجیہہ کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ کو فوری طور پر اپنی پوزیشن  واضح کرنی چاہیے،'' اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو یہ تاثر قائم ہو جائے گا کہ کچھ نہ کچھ تو ہے۔ لہذا  آرمی چیف کو اس حوالے سے بھرپور تفتیش اور تحقیق کرانا چاہیے اور اگر یہ الزامات جھوٹے نکلیں تو الزامات لگانے والوں کو سخت سزا ملنی چاہیے۔‘‘

سب کے لئے سخت احتساب

پاکستان میں یہ عام تاثر ہے کہ سرکاری عہدے دار، ارکان پارلیمنٹ  اور افسر شاہی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے آپ کو ہر طرح کے احتساب سے ماورا سمجھتے ہیں۔ جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کو اپنے اثاثہ جات متعلقہ حکومتی ویب سائٹ پر جاری کرنے چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’ ہر شہری کو یہ حق ہونا چاہیے کہ اگر وہ ان اثاثوں کے بڑھنے میں کوئی غیرمعمولی چیز نوٹ کرے تو وہ عدالت جا سکے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف یا کسی بھی جج کے خلاف کوئی بھی پاکستانی شہری سپریم جوڈیشل کونسل میں جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر کسی آرمی جنرل یا کسی بیوروکریٹ کے خلاف بھی کوئی ثبوت کسی عام شہری کو ملے تو اس کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ کسی ادارے میں جا کر ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرے۔‘‘

کیا پاکستان مارشل لاء کی طرف بڑھ رہا ہے؟

 سیاسی امور کے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ اس خبر نے بہت سارے سوالات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایک جمہوری معاشرے میں اس طرح کے سوالات ہوتے رہتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب لوگوں کا اداروں پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ اس لیے تمام اداروں کے عہدیداران کا کڑا احتساب ہونا چاہیے تاکہ اداروں پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو۔‘‘

فیکٹ فوکس کا مؤقف

 ڈی ڈبلیو نے فیکٹ فوکس کے صحافی احمد نورانی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی خبر پر قائم ہیں۔ ان کے بقول وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ تسلیم کر کے ان کے خبر کی تصدیق کر دی ہے کہ ٹیکس ڈیٹا لیک ہوا۔ احمد نورانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ٹیکس کے معاملے میں رازداری برقرار رکھی جاتی ہے اور قوانین بھی یہی کہتے ہیں لیکن یہ ایک بحث طلب نقطہ ہے، جس میں پوری دنیا میں بحث ہوتی ہے۔ امریکہ میں آزادی اظہار رائے ہے، وہاں پر بھی اس رازداری کے حوالے سے سخت قوانین ہیں لیکن ذرائع ابلاغ میں یہ بھی بحث ہے کہ ٹیکس کے حوالے سے اگر ایسے کچھ حقائق ہوں، جو عوامی مفاد میں ہوں اور جن کا جاننا عوام کے لیے ضروری ہے اور یہ اطلاعات ایک ایسے بندے کے بارے میں ہوں، جو عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے تنخواہ لے رہا ہو، تو یہ پھر ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کو رپورٹ کیا جائے۔‘‘

احمد نورانی کے مطابق اسی اصول کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نیویارک ٹائمز نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹیکس ڈیٹا شائع کیا۔ نورانی کا کہنا تھا کہ اگر کسی عوامی عہدیدار کے ٹیکس ریکارڈ سے کوئی رپورٹ بنتی ہے اور اس کے ثبوت بھی ہیں تو وہ ضرور رپورٹ ہونا چاہیے۔