1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ايرانی اہلکار ہمارے قبضے ميں ہيں،‘ پاکستانی جہادی گروہ

22 اکتوبر 2018

پاکستان اور ايران کی سرحد کے قريب ايرانی سرزمين سے اکتوبر کے وسط ميں بارہ ايرانی سکيورٹی اہلکاروں کے اغواء کی ذمہ داری ايک جہادی گروہ نے قبول کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/36xYZ
Iranische Revolutionsgarde
تصویر: AP

دہشت گرد گروہ جيش العدل نے دو تصاوير جاری کی ہيں اور يہ دعوی کيا ہے کہ ان تصاوير ميں وہ ايرانی اہلکار ديکھے جا سکتے ہيں، جنہيں سولہ اکتوبر کو پاکستانی سرحد کے قریب سے اغواء کيا گيا تھا۔ يہ خبر ايران کے نيم سرکاری خبر رساں ادارے ISNA نے پير بائيس اکتوبر کو جاری کی ہے۔ پير کو جاری ہونے والی ان دو تصاوير ميں ايران کے پاسداران انقلاب کے سات ارکان اور پانچ پوليس کمانڈوز کو ديکھا جا سکتا ہے۔

 جيش العدل در اصل ’جنداللہ‘ نامی ايک اور سنی جہادی گروہ سے نکلا تھا۔ جيش العدل کے لفظی معنی ’انصاف کی فوج‘ ہيں اور يہ گروہ سن 2012 ميں وجود ميں آيا تھا۔ پچھلے چند برسوں ميں جيش العدل نے ايرانی سکيورٹی حکام کو اپنے متعدد حملوں کا نشانہ بنايا ہے۔ يہ حملے زيادہ تر ايران کے جنوب مشرقی صوبہ سستان بلوچستان ميں کيے گئے۔

ايرانی اہلکاروں کو سستان بلوچستان کے صدر مقام زاہدان سے تقريباً ڈيڑھ سو کلوميٹر دور واقع لولاکدان نامی ايک ديہات سے سولہ اکتوبر کو اغواء کيا گيا تھا۔ اطلاع ہے کہ انہيں کسی ايک فرد نے بے ہوش کر کے اغواء کيا اور پھر انہيں پاکستان ميں خفيہ پناہ گاہوں تک پہنچا ديا گيا۔ ايران کی سرکاری نيوز ايجنسی ارنا کے مطابق اغواء کی واردات کی تفصيلات پاسداران انقلاب کے کمانڈر ميجر جنرل محمد علی جعفری نے ديں ہيں۔

مغوی ايرانی اہلکاروں کی تصوير ميں وہ اسلحہ بھی ديکھا جا سکتا ہے، جو جہاديوں نے اہلکاروں سے اپنے قبضے ميں لے ليا ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ سستان بلوچستان ميں ايک عرصے سے پاکستانی صوبہ بلوچستان کے عليحدگی پسند اور جہادی گروہ مبینہ طور پر متحرک ہيں۔ اس صوبے کی اکثريتی آبادی سنی ہے۔  

ايرانی پاسداران انقلاب نے بتايا ہے کہ ان کا ايک وفد کمانڈر محمد پاکپور کی صدارت ميں پير بائيس اکتوبر کو پاکستان کے دورے پر تھا، جہاں مغوی ايرانی اہلکاروں کی بازيابی کے ليے جاری کوششوں کا جائزہ ليا گيا۔

ع س / ع ب، نيوز ايجنسياں