1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ايران ميں صدر اور پارليمانی اسپيکر کے مابين تنازعہ، سابق وکيل استغاثہ زير حراست

5 فروری 2013

تہران ميں دفتر استغاثہ کے مطابق سعيد مرتضوی نامی ايک سابق وکيل استغاثہ کو حراست ميں لے ليا گيا ہے۔ مرتضوی کے بارے ميں بتايا جا رہا ہے کہ وہ ملکی صدر اور پارليمانی اسپيکر کے درميان جاری تنازعے ميں مرکزی کردار کے حامل ہيں۔

https://p.dw.com/p/17Y9e
تصویر: AP

خبر رساں ادارے روئٹرز کی ايک رپورٹ کے مطابق سعيد مرتضوی کی حراست کے بارے ميں پير کی شب دفتر استغاثہ کی جانب سے ايک مختصر بيان کے ذريعے مطلع کيا گيا ہے۔ تاحال ان کی حراست کی کوئی وجہ بيان نہيں کی گئی ہے۔

ايران کی فارس نيوز ايجنسی کے مطابق سعيد مرتضوی کو گزشتہ رات گئے کام سے واپسی پر گرفتار کيا گيا اور اب انہیں ايوان قيد خانے ميں رکھا جا رہا ہے۔

ايران ميں سن 2009ء ميں ہونے والے صدراتی انتخابات کے بعد تين زير حراست ملزمان کی ہلاکتوں کے بعد مرتضوی کو ان کے عدالتی عہدے سے معطل کر ديا گيا تھا۔ ملکی اپوزيشن کا دعویٰ تھا کہ ان انتخابات ميں صدر احمدی نژاد کو کاميابی دلوانے کے ليے دھاندلی کروائی گئی تھی۔ دھاندلی کے الزامات کے پيش نظر ايرانی عوام کی ايک بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی تھی۔

ايرانی نيوز ايجنسی فارس کے مطابق سعيد مرتضوی کی حراست کا تعلق سن 2009ء ميں ان تين زیر حراست ملزمان کی اموات سے ہو سکتا ہے۔ اس کا اندازہ ايرانی عدليہ کے ترجمان کے گزشتہ مہينے کے اُس بیان سے بھی ہوتا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اس کيس پر پيش رفت مارچ ميں متوقع ہے۔

احمدی نژاد نے مرتضوی کی گرفتاری کو ’بہت بدصورت‘ قرار ديا
احمدی نژاد نے مرتضوی کی گرفتاری کو ’بہت بدصورت‘ قرار دياتصویر: ISNA

گزشتہ اتوار کے روز بھی مرتضوی کا نام صدر احمدی نژاد اور پارليمانی اسپيکر علی لاريجانی کے درميان جاری تنازعے کے سلسلے میں لیا گیا۔ اپنی ايک تقرير کے دوران احمدی نژاد نے لاريجانی کے اہل خانہ پر کرپشن کا الزام عائد کيا۔ انہوں نے ايک ويڈيو دکھائی، جس ميں پارليمانی اسپيکر کے بھائی فاضل لاريجانی نے سعيد مرتضوی کے ساتھ ہونے والی ايک ملاقات ميں اپنے خاندان کی سياسی حيثيت کو مالی فائدے کے ليے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ فاضل لاريجانی اور علی لاريجانی دونوں نے اس الزام کی ترديد کرتے ہوئے احمدی نژاد اور مرتضوی کے خلاف عدالتی کارروائی کرنے کا عنديہ ديا تھا۔ واضح رہے کہ ايرانی عدليہ کے سربراہ صادق لاريجانی ہيں، جو فاضل اور علی کے بڑے بھائی ہيں۔

ايرانی صدر احمدی نژاد اس وقت ايک سمٹ ميں شرکت کے سلسلے ميں مصر ميں ہيں۔ انہوں نے مرتضوی کی گرفتاری کو ’بہت بدصورت‘ صورتحال قرار ديتے ہوئے وطن واپسی پر اس کی تحقيقات کرانے کا کہا ہے۔

امريکا ميں مقيم ايران کے انتخابی نظام کی ايک ماہر ياسمين عالم کا اس سلسلے ميں کہنا ہے، ’’گزشتہ ايک دہائی کے دوران سعيد مرتضوی کا نام ايران ميں انسانی حقوق سے جڑے اگر تمام نہيں تو زيادہ تر تنازعات کے سلسلے ميں سامنے آيا ہے۔‘‘ نيوز ايجنسی روئٹرز کے مطابق مرتضوی کو چند لوگ ’پريس کا قصائی‘ بھی کہتے ہيں کيونکہ وہ ايران ميں کئی صحافيوں کی گرفتاری اور انقلابی اخبارات اور اشاعتوں کو رکوانے ميں مرکزی کردار ادا کرچکے ہيں۔

as/aa (Reuters)