1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوزِل معاملے نے جرمنی میں نئی ’می ٹو‘ بحث چھیڑ دی

27 جولائی 2018

میسوت اوزِل کی جانب سے ’نسل پرستی‘ کے الزامات عائد کرتے ہوئے قومی فٹ بال ٹیم سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد جرمنی میں تارکین وطن معاشرتی سطح پر پیش آنے والے امتیازی واقعات کو ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ کے ساتھ بیان کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/32CnM
Länderspiel Deutschland Saudi Arabien Fan Protest Mesut Özil
تصویر: Imago/Horstmüller

جرمن فٹ بال کھلاڑی میسوت اوزِل نے جرمنی میں قومی فٹ بال فیڈریشن پر الزام عائد کیا تھا کہ انہیں ترک نژاد ہونے کی وجہ سے ’نسل پرستی‘ اور ’تفریق‘ کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ گو کہ میسوت اوزِل کے ان الزامات کو جرمن فٹ بال فیڈریشن کی جانب سے رد کیا گیا ہے، تاہم اس معاملے کے بعد جرمنی میں بسنے والے تارکین وطن سوشل میڈیا پر #MeTwo لکھ کر جرمن معاشرے میں اپنے ساتھ پیش آنے والے ان واقعات کا ذکر کر رہے ہیں، جن میں انہیں عدم مساوات، نفرت، نسل پرستی یا پھر سماجی تفریق کا نشانہ بنایا گیا۔

جرمن جریدے ڈئر اشپیگل سے وابستہ صحافی حسنین کاظم نے ہیش ٹیگ ’می ٹو‘ کے ساتھ ٹوئٹر پر لکھا، ’’جب میں ایک بھری ہوئی ٹرین میں واحد غیرسفید فام شخص تھا، پولیس اندر داخل ہوئی اور مجھ سے شناختی دستاویزات مانگی گئیں۔‘‘

‘ترک نژاد جرمن شہری آج بھی ذہنی طور پر ترکی سے قریب ہیں‘

’جرمن رویہ ناقابل قبول: وجہ اوزاِل کا مذہب ہے‘، صدر ایردوآن

اس مہم کا آغاز ترک نژاد مصنف اور انسانی حقوق کے کارکن علی کان نے ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ کے ساتھ کیا تھا۔ گو کہ سوشل میڈیا پر اس سے قبل اس ہیش ٹیگ کے ساتھ خواتین اپنے ساتھ جنسی تفریق، حملوں، ریپ اور اسی انداز کے واقعات کا اظہار کرتی آئی ہیں، تاہم جرمنی میں اب اس ہیش ٹیگ کو معاشرتی عدم مساوات اور نسل کی بنیاد پر تفریق کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اتوار کو اوزِل نے اپنے ایک مراسلے میں اپنے ساتھ ’نسل پرستانہ اور نفرت انگیز رویوں‘ کے الزامات عائد کرتے ہوئے جرمنی کی قومی فٹ بال ٹیم سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ اوزِل کو ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ ایک تصویر اتروانے کے بعد جرمنی میں شدید تنقید کا سامنا تھا۔ تب اوزِل نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا، ’’میرے دو دل ہیں، ایک جرمن اور ایک ترک۔‘‘

اس معاملے کے بعد جرمنی میں سماجی انضمام اور نسل پرستی کے موضوع پر شدید بحث جاری ہے۔ گزشتہ منگل کے روز کان نے جرمنی میں اس مہم کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا، ’’غیرملکی پس منظر کے حامل افراد کی جانب سے ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ کے ساتھ بحث کی جانا چاہیے۔‘‘

ان کا اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں مزید کہنا تھا، ’’میں ایک سے زیادہ شناختی حوالوں کا حامل ہوں۔ جرمنی میرا گھر ہے، مگر میں ایک اور ملک سے بھی جڑا ہوا محسوس کرتا ہوں۔ یہ دونوں اطراف مجھ میں ایک ساتھ ہیں۔ میں کسی ایک کو ختم نہیں کر سکتا۔‘‘

اس کے فوراﹰ بعد ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ کی یہ مہم وائرل ہو گئی، جس میں ہزاروں افراد نے جرمنی میں نسل پرستی اور عدم مساوات سے متعلق اپنے تجربات لکھنا شروع کر دیے۔

ع ت، م م (اے ایف پی)