1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈونیشیا میں ہزارہ مہاجرین نے ’مایوسی‘ کا حل تلاش کرلیا

8 اگست 2018

جکارتہ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے مہاجرین ’ہیلپ‘ پروگرام کے ذریعے پاکستان، افغانستان اور سومالیہ جیسے ممالک کے تارکین وطن کو تعلیم اور تربیت فراہم کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/32qV5
Flüchtlinge in Indonesien
تصویر: DW/G. Harvey

انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں  ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کے چند مہاجرین نے صحت، تعلیم اور تربیت کے ایک پروگرام ’ہیلپ‘ کا آغاز کیا۔ ’ہیلپ‘ HELP'' پروگرام کا مقصد ایسے تارکین وطن کی حوصلہ افزائی کرنا تھا جو دن بھر اپنے گھروں میں فارغ بیٹھے رہتے تھے اور صرف اپنے ماضی کو یاد رکھتے تھے۔ 

ہزارہ برادری کی ہلاکتیں ’نسل کشی‘ ہے، ثاقب نثار

امن کے لیے اسلام کی ’نئی تشریح‘ ضروری: انڈونیشی عالم دین

’ہیلپ‘ سکول میں ایک سو سے زائد تارکین وطن طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ صبح کے وقت یہاں بچوں اور نوجوانوں کو انگریزی، ریاضی، فنون و سائنس کے ساتھ سماجی علوم کے مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ جب کہ بالغ تارکین وطن کے لیے شام کو انگریزی اور انڈونیشین زبان سمیت مختلف زبانیں سکھائی جاتی ہیں۔ اس پروگرام کے بانی، افغانستان کی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے باقر کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ انڈونیشیا میں مقیم مہاجرین کو زندگی میں نئی امید دکھاتا ہے، تاکہ وہ گھر سے نکلیں اور کچھ نیا اور مثبت کام سیکھ سکیں خواہ پھر وہ تعلیم ہو یا کوئی ہُنر۔ منصوبے کو عملی جامع پہنانے میں باقر کےساتھ چند کاروباری اشخاص نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔

Flüchtlinge in Indonesien
تصویر: DW/G. Harvey

’رفیوجی وومین سپورٹ گروپ‘

جکارتہ سے ستر کلومیٹر کے فاصلے پر پاکستانی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی کلثوم جعفری تارکین وطن خواتین کو ہیلتھ ورکشاپ، انگریزی کلاس، اور سلائی سکھانے کا سینٹر چلاتی ہیں۔ کلثوم نے سن 2013 میں یہاں سربند اور پرس بنانے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اب ’رفیوجی وومین سپورٹ گروپ‘ میں خواتین خود سلائی مشینوں پر ملبوسات تیار کرتی ہیں۔ قبل ازیں کلثوم نے ایک آسٹریلوی پی ایچ ڈی ریسرچر کے ساتھ  مل کر مہاجر خواتین کے ہاتھوں سے تیار کردہ ملبوسات اور بیگ کا ’آن لائن برانڈ‘ بھی شروع کیا تھا۔

Flüchtlinge in Indonesien
تصویر: DW/G. Harvey

انڈونیشیا میں تقریباﹰ تیرہ ہزار آٹھ سو پناہ کے متلاشی افراد موجود ہیں۔ ان پناہ گزینوں کے حقوق محدود ہیں۔ پناہ گزینوں کو نہ تو تعلیمی اداروں تک رسائی حاصل ہے اور نہ ہی کام کرنے اجازت۔ ماضی میں انڈونیشیا میں مہاجرین کوایک مخصوص مدت کے لیے رہنے کی اجازت دی جاتی تھی جس کے بعد انہیں کسی ایسے ملک منتقل کر دیا جاتا تھا جہاں وہ ’محفوظ اور بہتر زندگی‘ بسر کرسکیں۔ تاہم گزشتہ چند برسوں کے دوران حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے سن 2017 میں یہاں بسنے والے مہاجرین کو آگاہ کر دیا تھا کہ اب ’ان کی کسی دوسرے ملک منتقلی ممکن نہیں ہے‘۔

ع آ / ش ح ،  (ہاروے جمیما، انڈونیشیا)