1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈونیشیا میں ہزاروں برس پرانی پینٹنگز کی دریافت

عابد حسین9 اکتوبر 2014

انڈونیشیا کے جزیرے سولاویسی میں ہزاروں برس پرانی پینٹنگز کی دریافت نے تاریخ کا ایک نیا باب کھول دیا ہے۔ یہ انتہائی قدیم اور نایاب مصوری کے شاہکار سات غاروں میں آسٹریلوی محققین کی ٹیم نے تلاش کیےہیں۔

https://p.dw.com/p/1DSIj
تصویر: picture-alliance/dpa

سُولاویسی (Sulawesi) کے غاروں سے دستیاب ہونے والی پینٹنگز کو چالیس ہزار برس پرانا قرار دیا گیا ہے۔ پینٹنگز کے قدیم ہونے کی تحقیق کرنے والے ماہرین آثارِ قدیمہ اور آرکیالوجیکل سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ پینٹنگز کے پرانے ہونے کے لیے انتہائی جدید ریڈیو ایکٹو طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔ محققین کے مطابق سولاویسی جزیرے کے غاروں میں بنائی گئی پینٹنگز انسانی ہاتھوں کے سب سے قدیم شاہکار قرار دی جا سکتی ہیں۔

Werner Herzog Film Die Höhle der vergessenen Träume Flash-Galerie
ہزاروں برس قبل انسان نے غاروں میں نقش و نگار بنائے تھےتصویر: 2011 Ascot Elite Filmverleih GmbH

سوُلاویسی جزیرے کی پینٹنگ میں اُس دور کے انسانوں نے اپنی تصاویر میں جانور کے نقش و نگار بھی بنائے تھے۔ ان میں ایک ایسے ناپید ہونے والے جانور کی بھی تصاویر ہیں جسے خنزیری ہرن (pig-deer) کہا جاتا ہے۔ ریسرچرز کا خیال ہے کہ سولاویسی غاروں کے فن پارے کا یورپ میں دستیاب ہونے والے غاروں کے فن پاروں کے ساتھ موازانہ کیا جا سکتا ہے۔ غاروں میں تصویر کشی کے حوالے سے پہلے یہ خیال پایا جاتا تھا کہ صرف یورپ کے قدیم باشندوں نے اپنے جمالیاتی احساست کے اظہار کے لیے غاروں کی دیواروں کو استعمال کیا تھا۔

آسٹریلیا کی گریفیتھ یونیورسٹی کے آرکیالوجیکل ماہر میکزیمے اؤبرٹ کا کہنا ہے کہ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ وسطی یورپ انسانی فنکارانہ سرگرمیوں جن میں خاص طور پر غاروں میں نقاشی اورامیج سازی کا سب سے قدیم مرکز ہے اور یہ یورپی جمالیاتی سرگرمی بھی قریب چھبیس ہزار سال پرانی ہے جبکہ سولاویسی سے ملنے والے قدیمی فن پارے 35 سے 40 ہزار برس پرانے ہیں۔ وسطی یورپ میں فرانسیسی مقامات شووے (Chauvet) اور لاسکُو (Lascaux) میں 18 سے 26 ہزار برس قبل غاروں میں انسانی ہاتھوں سے بنائی جانے والی مصوری کو ڈھونڈا جا چکا ہے۔

Werner Herzog Film Die Höhle der vergessenen Träume
وسطی یورپی ملک فرانس کے دو مقامات پر غاروں میں فن پارے دستیاب ہوئے تھےتصویر: 2011 Ascot Elite Filmverleih GmbH

آسٹریلیا کی ہی وولنگونگ یونیورسٹی کے ماہر تھامس اسٹکینا کا کہنا ہے کہ سولاویسی کے غاروں سے ملنے والی پینٹنگز سے معلوم ہوا ہے کہ جو جمالیاتی سرگرمیاں وسطی یورپ میں جاری تھیں ویسی ہی کاوشیں زمین کے ایک دوسرے علاقے میں رہنے والے انسان بہت پہلے کر چکے تھے۔ اسٹکینا کا یہ بھی کہنا تھا کہ قدیم غاروں کی دیواروں پر کی جانے والی پینٹنگز، نقاش اور کندہ کاری ماضی کے انسانوں کے تجریدی ذہن کی عکاس ہے اور یہ آج کے جدید انسان کی تجریدی سوچ کی ابتدا بھی ہے۔

سولاویسی کے غاروں سے ملنے والی پینٹنگز کی تعداد چودہ ہے۔ ان میں بارہ میں انسانی ہاتھوں کے بنائے ہوئے اسٹینسِل یا چھید کر کے بنائے گئے خاکے ہیں جبکہ بقیہ دو میں جانوروں کی شکلیں بنی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک میں خنزیری ہرن کی تصویر ہے اور دوسری تصویروں میں دکھائی دینے والا جانور خنزیر معلوم ہوتے ہیں۔ زیادہ تر تصاویر کو قدیم انداز سے تیار کیے جانے والے سُرخ رنگ سے رنگا ہوا ہے۔ بورنیو کے جزیرے شمالی سولاویسی کے مقام ماروس کی غاروں سے یہ فن پارے دستیاب ہوئے ہیں۔